حال احوال
قیمتی لمحات
تحریر:مدثریوسف پاشا ؔ
چاردیواری تو گھروں کی عصمت وناموس کے لیے لازمی تھی ہی لیکن ہم نے دلوں میں دیوار چین بناکر گویا اپنے مسلمان بھائی کی محبت،عزت اور احترام کاداخلہ بھی بندکرڈالاہے۔ جب سگے بھائی ایک دوسرے کاچہرہ دیکھنے کے روادار نہیں ایسے میں دس پندرہ صاحب ذوق دیوانوں کامل بیٹھنا ایک غنیمت سے کم نہیں۔ وگرنہ کون ہے جسے فکرمعاش نہیں،جسے زمانے بھرکے ساتھ چلنے کاجنون نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نہ توعزت، شہرت اوردولت کی لالچ،نہ واہ واہ کے طالب۔ کیونکہ ہمارا مقصود،پیغام محبت ہے،جہاں تک پہنچے۔
الحمدللہ! راقم نے 2013ء سے اس خوبصورت وادی کووادی امن ومحبت کانام دے رکھاہے اور یہ محض مبالغہ نہیں۔ آپ وادی کے کونے کونے میں گھوم جائیں اللہ کے لیے محبت کرنے والے اور تعلق قائم رکھ کرنبھانے والے بہت ملیں گے۔ ویسے تو ہمارا ہرصاحب ذوق فرد شاعر کوتصوراتی دنیا کاباشندہ سمجھتاہے لیکن خود ایسی رومان پرور جگہ کاطالب ومتمنی ہوتاہے جہاں مظاہر فطرت ایک دوسرے سے اہم اس طرح گلے مل رہے ہوں کہ کوئی دید، کوئی حسر ت اور کوئی تشنگی باقی نہیں رہے۔
دوسروں سے اپنا مکان بڑا کرنے کے لالچ نے ہمیں قرآن کے ”سیروفی الارض“مظاہر قدرت کودیکھنے،ان پر غورکرنے اور ان کے خالق تک پہنچنے کے پیغام سے بھی دور کردیاہے۔ وگرنہ دل کی آنکھ واکرکے دیکھیں تو مری،ناران،کاغان سب میری وادی کے حسن کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے دل کابیناہونالازمی ہے۔
جی ڈھونڈتاہے پھر فرصت کے وہی رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
2005ء میں پریس کلب کھاریاں کے ہمارے صحافی دوست تشریف لائے تو ہم نے انہیں جنگل ہوٹل پرکھاناکھلایا۔ کھانے کے بعد وہ نالے میں اس بے تابی سے گھسے کہ ہمیں لگا شاید ان کی کوئی قیمتی چیز گرگئی ہے۔ گھنڈیرے کے پھولوں کے ساتھ منہ لگاکر تصویریں بناتے ہوئے ہمیں ان کے چہروں پرویسی ہی خوشی نظر آتی تھی جیسے کسی بچے کواس کامن پسند کھلونا مل جانے پر حاصل ہوتی ہے۔
میں تو اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ آتے گئے،کارواں بنتاگیا
کے مصداق عزیزم شہباز،خورشید نے وادی حسن،امن ومحبت کی مردم خیز مٹی میں چھپے نگینے تلاشنے،تراشنے اور انہیں پروان چڑھانے کے لیے جس اخلاص ومحبت کامظاہرہ کیا اس کاپھل عزیز نجم صاحب تیسری عید ملن ادبی محفل کی ازخود میزبانی کااعلان کرنے کے ساتھ ہی مل گیاتھا لیکن محض اپنے جذبات کی تسکین،کچھ دیر دنیا کے جھمیلوں سے کٹ کرذر ا مختلف سی دنیا میں رہنے کے لیے احباب نے جس دریا دلی کامظاہر ہ کیا یوں محسوس ہوا محنت کاسارامعاوضہ پسینہ خشک ہونے سے پہلے مل گیاہو۔ سہ پہر تین بجے جب ہم گرہون کے خوبصورت جنگل کومنگل میں بدلنے پہنچے تو عزیز نجم اپنے دیگر میزبانوں کے ساتھ پہلے ہی دیدہ وفرش راہ کیے ملے۔
مخملی فرش پر بیٹھ کراپنی اوقات یادآتی ہے ساتھ ہی ساتھ آدمی دنیاوی تکلفات سے بے نیاز ہو کربرابری کی سطح پر بیٹھتاہے۔ بنڈالہ سے راجہ شفیق اللہ خان ایڈووکیٹ اپنے دونوں بیٹوں سمیت، راجہ غضنفرعلی خاں ایڈووکیٹ اپنے شاعر بیٹے کے ساتھ وارد ہوئے تو یقیں ساہوگیا کہ
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے چار
ادب پرور اور باذوق سامعین محمدانور راؤ، راجہ طارق پرویز تیسری ادبی عیدملن محفل کے مہمان خصوصی ٹھہرے جبکہ مہمانان اعزاز راجہ شفیق اللہ خان، ڈاکٹر عمار سکندر، ڈاکٹر دانیال غضنفر، حافظ نصیر اختر قرارپائے جبکہ میزبانی اور صدارت کاتاج پروفیسر عزیز نجم کے سر سجا۔
بزم کاآغاز اللہ رب العزت کے کلام لاریب سے حافظ عبدالرحمان شفیق نے کیاتو یوں محسوس ہوا کہ جیسے طیور، شجر وحجر ہمارے ساتھ ملکر اپنے خالق ومالک کی ذات کی لامحدود، لامتناہی صفات کوگنوانے کاشرف حاصل کررہے ہوں۔ حافظ نصیر احمد نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں عقیدت کے پھول اس خوبصورت انداز میں پیش کیے کہ سامعین نے خود کو گنبد خضریٰ کی سنہری جالیوں کے سامنے کھڑاپایا۔ شہباز حبیب عباسی نے روایتی طور پر اپنے کلام سے اپنے مستقبل کے بہت سے ارادوں سے پردہ اٹھایا جس تصدیق وتوثیق کے لیے صدر محفل اپنا رخ بندہ کی طرف کرتے لیکن ہم گویا انہیں یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ صاحب! اگر یہ جذبات بھی نہ ہوں تو شاعری میں کیارکھاہے بھلا؟
ہماری دوشعری نشستوں کی بازگشت سن کر شفیق اللہ خان کے صاحب زادے اذان نے جس خوبصورت انداز میں اپنی حاضری لگوائی وہی تو بزم شعر وسخن کے قیام کامقصود ومطلوب ہے۔ ادبی محفل میں اچنبھے کی بات چار چار ڈاکٹر ز کی موجودگی تھی۔یعنی اب جسمانی عوارض کے لیے سر،تال عمل میں لاکر مریضوں کوشفابانٹی جائے گی۔ بندہ نے بھی لہولگاکر شہید بننے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے محض ایک غزال پر گزارہ کرتے ہوئے باقیوں کوسننے کافیصلہ کیا۔ عزیزم خورشید حسن نے اپنے کلام سے وہ سماع باندھا کہ تقریبا! ہرفرد دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے بغیر نہ رہ سکا۔ ڈاکٹر دانیال غضنفر نے محض منہ دکھائی کے بعد کھسکنے کی ناکام سی کوشش کی جسے ناکام بنادیاگیا۔ پتری! شعراء کے ساتھ رہ کرتو بڑے بے ذوق شعروں سے قافیہ پیمائی کرنے
لگتے ہیں جبکہ شعراء تو خود اس طرح کی محافل سے کندن بن کرنکلتے ہیں۔
ازاں بعد ڈاکٹر نعمان خلیل نے بھی لفظوں کاایسا بے مثال تال میل پیش کیا کہ داد بے تابانہ وبے ساختہ نکلی۔ باؤرزاق دوردراز سے محض محفل کو چارآتشہ کرنے وار دہوئے اور تھوڑی ہی دیر میں میلہ لوٹ کرچلتے بنے۔ مہمانان خصوصی نے اس محفل کے انعقاد اور اپنی لازمی حاضری کوانتظامیہ کی کامیابی قرار دیتے ہوئے حوصلہ افزائی فرمائی۔ مہمان خاص نے آئندہ اس طرح کی کسی محفل کے اپنے علاقہ میں انعقاد ومیزبانی کامثردہ جاں فزاسنا کر گو منتظمین کے دل بڑے کردیئے۔ میزبان بزم نے جس طرح خوبصورت،دلفریب جگہ کاانتخاب کیا اس طرح اپنے چنیدہ کلام سے بھی حاضرین محفل کے دل موہ لیے۔ کلام سے بڑھ کرخلوص بھری میزبانی میں وہ مٹھاس اور چاشنی تھی جوصرف اخلاص ومحبت بھرے دل ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عمار سکندر نے اپنی دوستی کابھرپور حق اداکیا لیکن پیارے بھائی چودھری فضل الرحمان نے جس طرح پوری محفل کی گھوم گھوم کر کوریج کی وہ اندرسے ان کی ذوق پروری کی شاہد ہے۔
آخرمیں محض تصویری جھلکیاں دیکھ کرانگلیاں دانتوں تلے دبا لینے والے احباب کی محبت ان سب کے لیے سوالیہ نشان ہے جنہیں ہم چاہ سے بلاتے ہیں لیکن ان کے تقاضے ہیں کہ پورے ہونے کو نہیں آتے۔
642