زلزلہ…………وجوہات…………تدارک
تحریر: مدثریوسف پاشا ؔ
وطن عزیز میں زمین نے اللہ کے حکم سے ایک دفعہ پھر انگڑائی لی ہے کائنات کے اندر موجود تمام چیزیں اللہ رب العزت کی غلامی اور تابعداری میں ہیں اس کے حکم کے بغیر کائنات میں نہ کوئی پتہ ہل سکتاہے اور کوئی مچھر پرمارسکتاہے۔ دس سال بعد زمین کی انگڑائی نے 2005ء کے زخموں کوبھی تازہ کردیاہے دس سالوں میں دنیاکی مادی ترقی شاید کہاں تک جاپہنچی ہے۔لیکن ہماری بداعمالیاں بھی اپنی انتہا کوپہنچی ہوئی ہیں اس لیے زمینی آسمانی،آفات وبلیات کاآنا کوئی بڑی بات نہیں۔
ترمذی شریف کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ جب مال غنیمت کوذاتی دولت قرار دیاجانے لگے، جب امانت کو غنیمت سمجھ لیاجانے لگے، جب زکوۃ ٰ کو تاوان سمجھاجانے لگے، جب علم دین کوکسی اور غرض سے سیکھاسکھایاجانے لگے، جب مرد بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور جب ماں کی نافرمانی کی جانے لگے۔ جب دوستوں کوتو قریب اور باپ کودور کیاجانے لگے،جب مسجد میں غل غپاڑہ مچایاجانے لگے، جب قوم کی سرداری اس کے فاسق اشخاص کرنے لگیں، اور جب قوم کے لیڈر وسربراہ اس قوم کے کمینے اور ذلیل شخص منتخب کیے جانے لگیں، اور جب آدمی کی تعظیم اس کے شراورفتنہ سے ڈرکر کی جانے لگے،جب لوگوں میں گانے بجانے والی عورتوں اور سازوباجوں کادوردورہ ہوجائے،جب امت کے بعد والے لوگ پہلے والوں کو براکہنے لگیں اور ان پرلعنت بھیجنے لگیں، اور جب شرابیں پی جانے لگیں تو اس وقت تم ان چیزوں کے جلد ی ظاہر ہونے کاانتظارکرو،سرخ یعنی تندوتیز اور شدیدترین طوفانی آندھی، زلزلہ،زمین میں دھنس جانے کا، صورتوں کے مسخ ہوجانے کا، اور پتھروں کے برسنے کاانتظارکرو جواس طرح پے درپے آئیں گی۔جیسے موتیوں کی لڑی کادھاگہ ٹوٹ جائے او اس کے دانے اور موتی پے درپے گرنے لگیں۔
علماء کرام کی زبانی اس حدیث مبارکہ کی کچھ مزید وضاحت سے بات کے سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
جہاد کے ذریعے دشمنوں سے حاصل ہونے والے مال کو جو تمام مجاہدوں کامشترک مال ہوتاہے اگر اسلامی لشکر وطاقت کے ارباب اختیار اپنے درمیان تقسیم کرکے بیٹھ جائیں تو یہ سب کامال ان کااپنامال تصور کیاجانے لگے۔
امانت کوغنیمت شمارکرنے سے مرادیہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس امانتیں محفوظ کرائی جائیں اور امانت کے مال کوذاتی مال سمجھ لیاجائے۔
زکوٰۃ کوتاوان سمجھنے کامطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کااداکرنا لوگوں پر اس طرح شاق اور بھاری گزرے لگے گا گویا ان سے ان کامال زبردستی چھیناجارہاہے اور جسیے کوئی شخص ذاتی مال کو جرمانہ کی ادائیگی کے وقت تکلیف اور کڑواہٹ محسوس کرے بالکل ایسے جیسے قارون بھی اپنے زمانے کے نبی کو کہتاتھا مال میں نے اپنی محنت سے کمایاہواہے تمہارااور تمہارے اللہ کاکیاخرچ آیاہے؟(نعوذباللہ)
دین کے علم کومحض دیناوی جاہ وجلال اورمقام ومرتبے کے لیے حاصل کیاجائے۔مردکابیوی کی اطاعت کرنے سے مرادیہ ہے کہ اپنے گھروالوں کی بات ماننے میں اتنا مگن ہوجائے کہ اسے اللہ کی مقررکردہ حدودکاخیال نہ رہے۔
دوست کوقریب اور باپ کودورکرنے کامطلب یہ ہے کہ اپناوقت باپ کی خدمت میں حاضر رہنے،اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور دیکھ بھال کی بجائے دوستوں اور فضولیات میں مشغول رہے۔
مسجد میں شوروغل سے مرادیہ ہے کہ چیخ وپکارکرکے مسجد کے سکون میں خلل ڈالاجائے اور اس کے ادب واحترام سے لاپرواہی برتی جائے۔
قیادت ان لوگوں کے ہاتھ آجائے جو فاسق اورفاجرہوں اگر سچ میں یہی ہواور اس وقت ایساہی ہے تو اس قوم کو اپنی تباہی کوبالکل قریب سمجھناچاہیے۔
فتنہ کے ڈر سے تعظیم کرنے سے مراد یہ ہے کہ لوگ کسی آدمی کی عزت محض اس وجہ سے کریں کہ وہ بڑاہی خبیث اور شیطان آدمی ہے اگر ہم اس کے خلاف کوئی بات کریں گے تو ہمیں بعد میں تنگ کرے گا۔ یااس کونقصان پہنچانے کی استطاعت ہے۔
گانے والیوں سے مراد اس زمانہ میں تو ٹی وی،ڈش اور اب موبائل انٹرنیٹ پر فحاشہ عورتوں کی کثرت سے لگالینی چاہیے جنہیں ہیرؤن اور ماڈل کانام دیاجارہاہے۔
امت کے نیک لوگوں کوگالی دینے سے مراد اپنے اکابر کوبرابھلاکہناہے اس میں ان تمام حضرات کے لیے بہت ہی خسارے کاسوداہے جو صحابہ کرام ؓ کوبلاوجہ گالیاں دیتے اور ان پر مختلف قسم کے بہتان لگاتے نہیں تھکتے حالانکہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی کے مصداق انہیں تو ان کی لغزشوں پر بھی اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی صحبت کی وجہ سے معاف کردیں گے۔
صرف یہی ایک حدیث کیازلزلہ کے اسباب،وجوہات اور اس کے تدارک کی کھلی اور واضح نشانی نہیں ہے اللہ رب العزت کے غصے کوکم کرنے والی صرف ایک چیزہے اس کی بندگی اور اطاعت۔ورنہ ہم سے ذراساگناہ بھی سرزد ہوتاہے تو زمین اپنے مالک سے التجاکرتی ہے کہ اے مولا اگر تو اجازت دے تو میں اسے پکڑلوں لیکن اللہ پاک فرماتے ہیں کہ نہیں میں نے اسے مہلت دے رکھی ہے۔ جب ہماری نافرمانی اور شرانگیزی بڑھتی جائے گی تواللہ کی طرف سے آنے والی آفات وبلیات میں بھی اضافہ ہوتاجائے گا۔
770