لائن آف کنٹرول

لائن آف کنٹرول (ایل او سی) بھارتی اور پاکستانی کنٹرول حصوں کے درمیان فوجی کنٹرول لائن سے مراد ہے جو ایک قانونی طور پر تسلیم شدہ بین الاقوامی حد کا قیام نہیں ہے، لیکن اصل سرحد ہے۔اصل طور پرسیز فائر لائن کے طور پر جانا جاتا ہے، اس کو شملہ معاہدے کے بعد ”لائن آف کنٹرول” کے طور پر دوبارہ تبدیل کیا گیا تھا، جو 3 جولائی 1972 کو دستخط کیا گیا تھا۔
تعارف
نالی تا ہری پور تحصیل سما ہنی کے علاقے لائن آف کنٹرول پر واقع ہیں یوں کہا جاسکتا ہے کہ حلقہ ایل اے 6سما ہنی کی تقریباََ نصف آبادی لائن آف کنٹرول پر بستی ہے ۔
علاقے
نالی،کہاولیاں،بنڈالہ ،گاہی،نہالہ،چاہی،سونا ویلی،بڑوھ،ڈنہ،کوٹلی،کھمباہ اور ہری پور
سانحات
یوں تو کنٹرول لائن کا ہر گھر شہداء اور غازیوں سے بھرا پڑا ہے لیکن لائن آف کنٹرول کے قیام سے لے کر آج تک سیری بنڈالہ کا واقعہ ہندوستای افواج کی بربریت اور سفاکی کا وہ ہولناک باب ہے جس کا ہر صفحہ کنٹرول لائن پر بسنے والے کشمیریوں کی اپنے وطن سے محبت اور وفاداری سے بھرا پڑا ہے یہ اندوہناک واقعہ 27اور28اپریل1998کی درمیانی شب پیش آیا جب انڈین بلیک کیٹ کمانڈو ز نے رات کی تاریکی میں نہتے اور معصوم شہریوں پر شب خون مارا اور مختلف خاندانوں کے 22افراد کو شہید کر ڈالا۔
نقصانات
آئے روز ہونے والی بھارتی فائرنگ کی وجہ سے کنٹرول لائن کے غیور اور نہتے شہریوں کا جانی نقصان تو ہوتا ہی رہتا ہے لیکن ناکافی سہولیات اور دشوار گزار علاقوں میں رہائش پذیر ان لوگوں کی کل جمع پونجی ان کے مال مویشی ہوتے ہیں جنہیں کبھی تو انڈین فائرنگ کی زد میں آکر جان کی بازی ہارنا پڑتی ہے اور کبھی کبھار مائن فیڈ ایریا میں داخل ہونے کی وجہ سے موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دونوں صورتوں میں اگر مال مویشی زخمی ہو جائے تو اس کی دوبارہ بحالی کا کوئی چانس نہیں ہوتا اسے اونے پونے داموں ظالم قصائیوں کے ہاتھ فروخت کرنا پڑتا ہے مثلا اگر کسی شہری کی بھینس جس کی قیمت تقریبا 125000ہے گولی یا شیل سے زخمی ہونے کے بعد محض10000میں قصائی لے جاتے ہیں۔
متاثرین
1947سے لے کر آج تک مشکل اور بدترین جنگی حالات ہونے کے باوجود شہریوں نے دلیری اور استقامت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور افواج پاکستان کے ہراول دستے کا کردار ادا کرتے آئے ہیں لیکن شدید فائرنگ اور خراب صورت حال کی وجہ سے ہزاروں خاندان ملک کے طول و عرض میں مہاجر بن کر اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اس کی واضح مثال بھمبر میں بسنے والے بنڈالہ ،گاہی اور چاہی کے وہ ہزاروں افراد ہیں جو محض ہندوستانی جارہیت کے ہاتھوں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے ،قیمتی مال مویشیوں کا نقصان برداشت کرنے کے بعد مجبوراََ اس بنجر اور ویران علاقے کو گلستان بنانے کا سبب بنے ہیں۔