747

ناسور…….جہیز کی لعنت کے خلاف لکھاگیاافسانہ

ناسور
افسانہ نگار:مدثریوسف پاشا
نوٹ: افسانہ کے تمام کردار و واقعات فرضی ہیں۔کسی مطابقت کی صورت میں افسانہ نگار ذمہ دار نہ ہو گا۔
ماسٹر صنو برکے گھر میں بہت چہل پہل تھی۔ سارا گھر نئے سرے سے سفیدی کیا گیا تھا۔باہر سامنے والی دیوار پر ”خوش آمدید“ لکھا ہوا تھا۔ اندر دونوں تینوں کمروں میں پڑے فرنیچر‘چارپائیوں کو جھاڑ پھونک کر صاف ستھرا کر دیا گیا تھا۔ بستر‘ چارپائیوں اور پرانے بیڈ کی چادروں کو تبدیل کر دیا گیا تھا۔ تکیوں‘رضائیوں کے غلاف نیل سے دھو کر چمکا دیئے گئے تھے۔ بیٹھک کی اکلوتی شیڈ پر چند خوبصورت برتن سجائے گئے تھے۔ کھڑکیوں، دروازوں کے پردے تک نئے لگائے گئے تھے۔ یہ سارا اہتمام آنے والے ان ”معزز مہمانوں“ کیلئے تھا جو ماسٹر صنوبرکی گریجویٹ بیٹی ”گل صنوبر“ کو دیکھنے آ رہے تھے۔ ماسٹر صنوبر کی بیوی عائشہ گو گھریلو خاتون تھی لیکن بیٹی کے رشتے کیلئے آنے والوں کیلئے انہوں نے خاصے ذوق و شوق سے سارا اہتمام کیا تھا چند ایک مہمان بیٹھک میں بیٹھے ہوئے تھے ان میں ماسٹر صنوبر کے سسرال کے آدمی تھے۔
………………………………………………
ماسٹر صنوبر ایک جونیئر ٹیچر تھے۔ پنتیس سال قبل ان کی شادی اپنی ماموں زاد عائشہ سے ہوئی تھی۔ وہ میٹرک اور PTCکرنے کے بعد ابھی فارغ ہی ہوئے تھے کہ ان کی والدہ کو اپنے اکلوتے بیٹے کے سرپر سہرا دیکھنے کی شدید تمنا ہوئی۔ ماسٹر صنوبر کے والد نے عائشہ کا رشتہ مانگا جو بخوشی قبول کر لیا گیا۔ یوں دنوں میں شادی ہوگئی۔ شادی کے چار سال بعد اللہ نے ماسٹر صنوبر کے گھر ”گل صنوبر“ کی صورت میں رحمت دی تو ماسٹر صنوبر، ان کی بیوی، والدہ، والد بہت خوش ہوئے کہ ان کے گھر کی رونقیں تو دوبالا ہوئیں۔ پھر وقت کا پہیہ دھیرے دھیرے چلتا رہا اورماسٹر جی کے گھر اللہ نے مزید کوئی اولاد نہ دی ادھر وقت گزرتارہااور گل صنوبر نے بیس سال کی عمر میں گریجو ایشن کر لیا۔ ماسٹر صنوبر نے بیٹی سے بہت اصرار کیا کہ وہ دو جماعتیں اور ضرور پاس کرے لیکن بانو کی حساس طبیعیت نے اسے اپنے والد کے محدود وسائل میں کسی بڑی آرزو‘ خواہش کی تمنا کرنے سے روکے رکھا اور وہ کہیں بھی نہ تو نوکری کرنے گئی اور نہ ہی ماسٹر صنوبر نے اسے پسند کیا۔ وہ اکثرکہا کرتے ”بیٹی کو علم کی دولت سے اس لیے مالا مال کیا ہے کہ کل کو اسے ایک نسل گود لینی ہے“ نہ کہ نوکری کروانے کے لیے۔
………………………………………………
وقت گزرتا رہا اور گل صنوبرکی امی کو اس کی شادی کی فکر نے سخت پریشان اور غم زدہ کر دیا۔ کرتے کرتے وہ ایسی بیمار ہوئیں کہ دو سالوں میں تمام جمع پونچی ان کی بیماری پر خرچ ہو گئی اور اسی دوران ماسٹر صنوبر کے والداور والدہ بھی یکے بعد دیگرے چل بسے اور یوں مسلسل پریشانیوں اور بیماریوں نے ماسٹر صنوبر کو مقروض بھی کر دیا۔ اب بیالیس سال کی عمر میں ہی وہ بوڑھے دکھائی دینے لگے۔ عینک مستقل لگ گئی۔بال سفید ہو گئے۔ خوبصورت گندمی رنگ دھندلا گیا۔ ایسے میں موسمی رشتے دار تو فصلی بٹیروں کی مانند اڑ گئے۔ اور جو کچھ قریبی تھے۔ وہ گھر آنے سے کترانے لگے کہ کہیں ادھار نہ مانگ بیٹھیں۔ یہ چار پانچ ماہ ماسٹر صنوبر کے لیے نہایت پریشانی اور مصائب کے تھے۔ وہ اپنی بیوی کی حالت دیکھتے تو انہیں سخت الجھن ہوتی پھر بیٹی کی ویران آنکھوں کے سناٹے سے بھی انہیں سخت ڈر لگتا۔کبھی کبھی وہ سوچتے یہیں کسی جاننے والے سے بات کر کے بیٹی کونوکری لگا دوں تا کہ حالات میں کچھ بہتری آئے۔لیکن پھر انہیں بیوی کی بیماری اس سوچ سے روک دیتی۔ وہ سوچتے ”بیٹی نوکری سے لگ گئی تو عائشہ کی دیکھ بھال کونکرے گا“؟ غرض ہزاروں قسم کی سوچیں اور فکریں انہیں اژدہوں کی مانند ڈستی رہتیں اور وہ یہ زہر مجبوراً پیتے رہتے۔ انہی دنوں ان کے کسی ساتھی استاد نے اپنے کسی رشتہ دار سے ان کی بیٹی کا ذکر کر دیا۔ وہ آدمی فوراًرشتہ کرنے کے لیے راضی ہو گیا کہ چلو اچھا خاصا جہیز ملے گا اس نے صنوبرصاحب کے ساتھی ٹیچر سے کہا کہ وہ صنوبر صاحب سے بات کرے ہم ان کے گھر رشتہ دیکھنے کے لیے آ رہے ہیں۔
………………………………………………
پھر اس استاد نے کئی دنوں بعد صنوبر صاحب سے دوبارہ اسی موضوع پر بات کی۔ ماسٹر صنوبر نے اسے خوش آئند سمجھا اور گھر آ کر عائشہ (بیوی) سے بات کی۔ پہلے تو ان کی بیوی کو یقین ہی نہ آیا لیکن پھر ان کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا تب صنوبرصاحب کو یوں لگا جیسے ان کی بیوی کو صرف بیٹی کی شادی کا غم لے ڈوبا ہے۔ اگلے تین چار مہینے مہمانوں کو بلانے کی تیاریوں میں لگے۔ اس دوران خوش کن بات یہ ہوئی کہ ماسٹر صنوبر کی بیوی عائشہ مکمل صحت یاب ہوگئیں۔ ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی۔پھر وہ مبارک دن آ گیا جب ”گل صنوبر“ کے رشتے کیلئے وہ لوگ تشریف لائے۔ وہ بھی متوسط طبقے سے ہی تعلق رکھتے تھے لیکن گل کی ہونیوالی ساس ”لومڑی“ کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی اس نے پہلے تو عائشہ بیگم کو شیشے میں اتارا پھر ان کے مسائل کو اپنے مسائل جانا۔ ان کی بیٹی کا اپنا لخت جگر کہا انہیں بہت سی تسلیاں دیں اور آخر میں جھٹ سے یہ بھی کہہ دیا کہ ہم فوراً شادی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ لڑکی ہمیں بہت پسند آ گئی ہے اور بے مقصد دیرکرنے سے عمریں ہی ڈھل رہی ہیں۔ عائشہ بیگم سیدھی سادی گھریلو خاتون تھیں انہوں نے تھوڑا وقت مانگا اور پھر ”ہاں“ کر دی لیکن شادی کے لیے انہوں نے کچھ عرصہ مہلت مانگی تا کہ وہ بیٹی کو دھوم دھام سے رخصت کر سکیں۔ ادھر ثریا نے جان لیا کہ شکار پوری طرح جال میں پھنس چکا ہے تو اس نے انہیں جلد سے جلد شادی کرنے کیلئے کہہ دیا ساتھ ہی جہیزکی ایک لمبی فہرست ان کے ہاتھ میں تھمادی اور یہ بھی کہہ دیاکہ اگر ایک مہینے تک شادی کے لیے آپ نے بندوبست نہ کیاتو پھر ہماری طرف سے انکار ہی سمجھنا۔عائشہ بیگم کواپنی ٹانگوں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی شام کوانہوں نے ساری بات ماسٹرجی کوبتائی۔میں کچھ کرتاہوں کہہ کرماسٹر جی اپنے کمرے میں چلے گئے۔عائشہ بیگم کواپنے گھر کی ساری صورت حال کاعلم تھا انہیں پتہ تھاکہ ماسٹر صاحب پہلے ہی مقروض ہیں اور اتنی لمبی فہرست کی تکمیل کے لیے انہیں ادھار بھی نہیں ملے گا۔دوسری طرف ماسٹرصنوبر صاحب کوبھی جیسے چپ سی لگ گئی انہیں اپنی کم مائیگی کاشدت سے احساس ہونے لگا۔پیسوں کی کمی کی وجہ سے ان کی بیٹی کاگھر بسنے سے رہ رہاتھا۔اس پریشانی میں انہوں نے اپنی بیوی کوبھی شریک نہ کیابس سگریٹوں کی تعداد بڑھ گئی اور ایک اتوار کووہ ویسے ہی وقت گزاری کے لیے اخبار لے آئے۔اچانک ایک چیز کودیکھ کرانہیں بہت اطمینان ساہوا۔دوسرے دن انہوں نے اپنی بیوی سے کہاکہ گل کے سسرالیوں کوبلاؤ تاکہ شادی کی تاریخ طے کی جاسکے۔تاریخ طے ہوئی اور گل کی شادی اتنی دھوم دھام سے ہوئی کہ ساراگاؤں حیران پریشان رہ گیا۔ کسی نے کہا کہیں سے اھار لیا ہے کسی نے کہاشاید ماسٹر صاحب کوباہرکے کسی رشتہ دار نے اپنی سال بھر کی زکوۃ بھیجی ہے بعض بے خوفوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کوئی ڈاکہ مارا ہے غرض جتنے منہ اتنی باتیں لیکنگل کی شادی ٹھاٹ سے ہو گئی اور عائشہ بیگم و ماسٹر صنوبر نے خود کو ہلکا بہت ہلکا محسوس کیا۔ دونوں کی زبانیں شکر کرتے نہ تھکتیں۔
………………………………………………
عائشہ بیگم نے کئی بار ماسٹر صنوبر سے یہ راز جاننے کی کوشش کی کہ آخر وہ کونسا خفیہ نمبر تھا۔ جس کو رٹ لینے سے کسی لاکر کا منہ کھل گیا تھا اور شادی ایسی دھوم دھام سے ہوئی کہ لوگ مدتوں یاد کریں گے لیکن صنوبرصاحب نے کچھ نہ بتانے کی قسم کھا رکھی تھی سو عائشہ بیگم نے خاوند کی ناراضگی کے ڈر سے پوچھنا ہی چھوڑ دیا۔بیٹی اپنے گھر میں خوش، مطمئن اور مسرور تھی ادھراس کے والدین اپنے گھرمیں شاد، لیکن چوتھے مہینے ہی وہ روتی پیٹتی واپس آ گئی۔صنوبرصاحب جانتے تھے کہ ان کی غیرت مند بیٹی کے سامنے کسی نے ان کی شرافت پر انگلی اٹھائی ہو گی اور وہ برداشت نہیں کر سکی۔ عائشہ بیگم کو بھی گل نے یہی بتایا کہ اٹھتے بیٹھتے وہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ پہلے تو شادی کرنے کیلئے پیسے نہیں تھے لیکن فوراً کہاں سے قارون کا خزانہ ہاتھ آ گیا؟ صنوبرصاحب نے ساری بات سننے کے بعد گل کو مطمئن کر کے اس کے گھر بھیج دیا کہ وہ جائے کل رات وہ خود وہاں آئیں گے اور اس کے بعد کبھی کوئی بات نہیں کرے گا۔ رات کو انہوں نے ایک مشکل فیصلہ کیا ایک ایسا فیصلہ یا راز جسے وہ اپنی شریک حیات سے بھی چھپائے بیٹھے تھے۔
………………………………………………
بعد از دوپہر دونوں میاں بیوی گل کے سسرال پہنچ گئے۔ رسمی باتوں اور شام کے کھانے کے بعد انہوں نے گل کے سسر سے اکیلے میں بات کرنے کو کہا جیسے ہی دونوں اکیلے ہوئے تو صنوبر صاحب نے کہنا شروع کیا ”بھائی صاحب میں کبھی بھی اس بات کا تذکرہ نہ کرتا لیکن مجھے آپ کے گھر والوں کی گھٹیا باتیں سن کر اس کا فیصلہ کرنا پڑا۔ واقعی پہلے ہمارے حالات ایسے تھے کہ ہم دو سال تک پچاس ہزار بھی جمع نہیں کر سکتے تھے؟ اور گل کی ماں کی حالت دیکھ کر میرا دل سخت پریشان اور شرمسارتھا کہ میں ان ماں بیٹی کی خوشی کیلئے کچھ نہیں کر سکتا پھر ایک دن میں وقت گزاری کیلئے اخبار لے آیا۔ بے مقصد سارا اخبار کھنگال لینے کے بعد میرے ذہن میں اشتہارات کا صفحہ دیکھنے کا خیال آیا کہ شاید ان میں میرے مطلب کی کوئی چیز ہو اور اسی امید پر میں نے بے چینی سے اشتہارات کا صفحہ کھولا تو ایک کروڑ پتی کے اکلوتے بیٹے کو ایک گردے کی ضرورت تھی کا اشتہار نظر آیا۔ ایک گردے کے عوض کروڑ پتی نے ڈھائی لاکھ دینے کا وعدہ کیا گیاتھا۔ سو دو دن بعد میں مذکورہ پتہ پر پہنچ گیا۔ ظہر تک میرے تمام ٹیسٹ وغیرہ لئے گئے اور عصر کے وقت تک میرا ایک گردہ نکال لیا گیا۔ وعدے کے مطابق ڈھائی لاکھ روپے مجھے مل گئے اور میں نے ان پیسوں سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی آپ کی منشاء اور طلب کے مطابق بلکہ آپ کی ڈیمانڈ سے بڑھ کرلیکن آپ لوگ……….پھر ان کی آواز بھرا گئی انہوں نے اپنی رپورٹیں نکالیں۔ ایکسرے میں واقعی ایک گردہ نظر آ رہا تھا۔ تبھی دروازے کے باہر برتن گرنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی بانو اور اس کی والدہ کی چیخیں سنائی دیں۔ وہ دونوں ماں، بیٹی چھپ کر صنوبرصاحب اور نصیر خان (سسر بانو) کی گفتگو سن رہی تھیں۔ عائشہ بیگم پر تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ گل کی حالت بھی دیدنی تھی۔ وہ آنکھیں پھاڑے اس بند دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں صنوبرصاحب نے یہ انکشاف کر کے گویا قربانی اور ایثار کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا تھا تب دونوں ماں بیٹی کا جی چاہا کہ وہ چیخ چیخ کر ساری دنیا کواکٹھا کر لیں اور انہیں بتائیں کہ وہ جس فرشتے کے کردار کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ کوئی اس کے جوتے سے بھی میل نہیں کھاتا اور چاند پر تھوکنے سے تھوک اپنے ہی منہ پر آ گرتا ہے۔
ادھر صنوبرصاحب نے اپنی دردناک ”کہانی“ ختم کی۔ ادھر کمرے میں موجود نصیر خان کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ اسے اپنی بیوی کسی کی خوشیوں کی قاتل دکھائی دینے لگی۔ اسے حالات کی سنگینی کااس قدر احساس ہرگز نہیں تھا۔اس کی بیوی نے واقعی ایک بڑاجرم کرڈالاتھا وہ اٹھا اور صنوبرصاحب کے قدموں میں گر گیا اور اعلان کیا کہ وہ انشاء اللہ آئندہ سے اس ”ناسور“(جہیز) کو ختم کرنے والوں میں سرفہرست ہوگااور اس کے لیے وہ اپنے باقی بیٹوں کی شادیاں بغیرجہیز کے کرے گا۔جی ہاں اس ناسور کوجس نے کئی گھروں کے بیٹے، باپ چھین لئے۔ کئی کی بینائی چھین لی اور کئی کے دل گردے چھین لیے۔
تب صنوبرصاحب کو یوں لگا جیسے ان کے چاروں طرف روشنیاں ہی روشنیاں ہو گئی ہوں اور ان کی قربانی اس ناسور کو جڑ سے ختم کر دے گی اور پھرکسی کی بیٹی اس کے نہ ہونے کی وجہ سے گھر کی دہلیز پر جوانی گزار کر بوڑھی نہیں ہو جائیگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں