دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر نے یہودیوں کیخلاف سخت آپریشن شروع کیا تو اس کی فوج نے ایک جرمن جیکب کو گرفتار کر لیا اور اسے بھی دوسرے یہودیوں کے ساتھ نظر بند ی کیمپ میں ڈال لیا۔ کیمپ کی زندگی نہایت مشکلات میں تھی۔ہر وقت مارپٹائی حتیٰ کہ ہر روز کسی نہ کسی یہودی کو سرعام قتل کیا جاتا پھر اس کی نعش کی بے حرمتی کر کے ہر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جاتے اور ان کو چیل کوؤں کے آگے ڈال دیا جاتا۔ دشمن کی فوجیں سب سے پہلے مفتوحہ اقوام کا حوصلہ توڑتی ہیں کیونکہ حوصلہ امید،زندگی اور روشنی ہوتا ہے اگر یہ ٹوٹ جائے تو اقوام ایسی موت مرتی ہیں کہ ان کا نام بھی صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ جیکب عالے کیمپ میں ایسا لگتا تھا کہ نہ ہی یہ قید ختم ہو گی اور نہ ہی انہیں رہائی ملے گی اسے رہائی دلائی سکتی تھی تو صرف موت۔ جیکب یہ سب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اسے شدید احساس ہوا کہ اگر قیدیوں کے دلوں میں آزادی اور فتح کی امید پیدا نہ ہوئی تو یہ ہزاروں قدری موت سے پہلے بے مارے جائیں گے۔اب اس اجاڑ اور دہشت ناک کیمپ میں امید کون پیدا کرے؟ یہی سب سے بڑا سوال تھا؟وہ پوری رات جیکب بے چینی اور قومی درد کی وجہ سے سو نہیں سکا۔صبح جب سورج نے اس کیمپ کے قیدیوں کے لیے نئے دن کا آغاز کیا تو جیکب اپنی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ کر چکا تھا۔شام کو نازی فوجیوں نے قیدیوں کو کوٹھڑیوں کیطرف دھکیلنا شروع کیا تو جیکب نے اپنے ایک ساتھی کے کان میں سرگوشی کی ”اتحادی فوجیں ہماری مدد کے پہنچنے والی ہیں“ ساتھی نے چونک کر اس کیطرف دیکھا۔جیکب نے اسے آنکھ ماری اور دبے لہجے میں اسے کہا”میرے پاس ایک ریڈیو ہے میں نے اسے جرمنوں سے چھپا کر رکھا ہو اہے اس پر میں نے بی بی سی سے سنا کہ جرمنوں کو بے شمار محاذوں پر شکست ہو رہی ہے اتحادی فوجیں تیزی سے جرمنی کیطرف بڑھ رہی ہیں اب ہماری قید محض چند دنوں کی بات ہے“۔
جیکب کا جھوٹ انتہائی کامیاب رہا اسی رات یہ خبر پورے کیمپ میں پھیل گئی۔ہارے ہوئے یہودیوں میں حوصلہ پیدا ہو گیا۔دوسرے دن جرمنوں نے دیکھا کہ ہر یہودی کی آنکھ میں ایک روشنی،ایک امنگ پیدا ہو چکی ہے اب تو جیکب نے یہ معمول بنا لیا کہ وہ اپنی کوٹھڑی سے نکلتا،منتظر یہودیوں کے قریب آتا اور انہیں اتحادی فوج کی کسی نہ کسی جھوٹی فتح کی خوشخبری سنا کر آگے نکل جاتا۔اور یہ خبر تھوڑی دیر میں پورے کیمپ میں پھیل جاتی۔تھکے ہارے یہودیوں کے چہرے خوشی سے تمتمااٹھتے جیکب کا یہ نسخہ اس قدر کارگر ثابت ہوا کہ کیمپ کی زندگی ہی بدل گئی یہ معاملہ کچھ دنوں تک تو چلتا رہا لیکن پھر جرمنی نے اس غیر معمولی تبدیلی کو محسوس کر لیا انھیں خطرہ محسوس ہونے لگا کہ قیدیوں کا حوصلہ اگر یوں ہی بڑھتا رہا تو کہیں بغاوت نہ پھیل جائے انھوں نے وجوہات معلوم کرنے کے لیے کیمپ میں اپنے جاسوس چھوڑ دئیے جنھوں نے اگلے دن ہی وجہ معلوم کر لی جیکب کو گرفتا ر کرلیا گیا اور اس کی کوٹھڑی کی تلاشی لی گئی لیکن ریڈیو نہ ملا تحقیقات شروع ہوئیں تو معلوم ہو ا کہ جیکب جھوٹ بول رہا تھا وہ قیدیوں کو اتحادیوں کی فتوحات اور نازی فوج کی شکست کی جھوٹی خبریں دیتا چلا آرہا تھا کیمپ کے انچارج نے اسے حکم دیا کہ وہ کیمپ کے سارے قیدیوں کو حقیقت بتلائے لیکن جیکب نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جرمنوں نے قیدیوں کے سامنے جیکب کو پھانسی دی اور کیمپ میں دفن کر کے اس کی قبر پر جیکب دی لائیر (جھوٹا)کا کتبہ لگایا اور کیمپ میں اعلان کر دیا کہ جیکب جھوٹا تھا اس کے پا س کو ئی ریڈیو نہیں تھا اس کی ساری خبریں بھی جھوٹی اور بے بنیاد تھیں لیکن یہودیوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا انھیں یقین تھا کہ جیکب کے پاس اگر ریڈیو نہ ہوتا تو اسے پھانسی کیوں دی جاتی اگر وہ اپنی جان بچانا چاہتا تو اس کے پاس موقع بھی تھا اس نے یہ موقع کیوں گنوایا؟
قدرت کا کمال دیکھیے چند روز بعد جرمنوں کو شکست ہو گئی ہٹلر نے خود کشی کر لی اتحادی فوجیں سرحدیں روندتی ہوئی جرمنی میں داخل ہو گئیں۔ کیمپ کے پھاٹک کھول دئیے گے یہودی قیدی آزاد ہوگئے یہ قیدی جب کیمپ سے نکلے تو ان کے پلوؤں میں جیکب کی قبر کی مٹی بندی ہوئی تھی وہ جیکب دی لیڈر آف ٹروتھ کے نعرے لگا رہے تھے آج انہی یہودیوں کی چوتھی نسل جیکب کو جنگ عظیم کا ہیرو سمجھتے ہوئے اس کی قبر کی مٹی سے عقیدت رکھتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ جیکب نے ٹمٹماتے حوصلے اور بجھتی ہو ئی امید کو اپنے خون کا ایندھن فراہم کرکے ناامیدی اور مایوسی سے ہزاروں یہودیوں کو بچا لیا۔
یہ کہانی ہمیں بڑا ہی انمول درس دیتی ہے کہ جب تمہارا حوصلہ ٹوٹنے لگے تمہاری امید کمزور پڑنے لگے لوگ اب کیا بنے گا کہنے لگیں اپنے گھر سے فرار ہو کو ہجرت قراردینے لگیں مستقبل کے خوف سے اپنے جگر گوشوں کو زہر دینے لگیں تو سمجھیں کہ تمہاری قوم میں جیکب ختم ہو گئے ہیں آس،امید دلانے والے جھوٹے جیکب کیونکہ بدقسمتی سے مایوسی پھیلانے والے سچے جیکب تو ہزاروں ہیں جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ ملک ابھی گیا کہ ابھی گیا۔دعا کرو کہ اللہ پاک ہماری قوم کو کوئی جھوٹا جیکب دے دے۔ جو ان کی پیلاہٹ اور افسردگی کو دیکھ کر یہ کہے کہ فکر نہ کرو تھوڑی دور سویرا ہے کیونکہ اگر ڈاکٹر مریض کو امید دلانا بند کر دے تو مریض معمولی مرض سے بھی جلد مر جاتا ہے۔
(ماخوذ)
894