شہدائے سیر ی بنڈالہ کی بائیسویں برسی
تحریر: مدثریوسف پاشا سرسالہ (میانہ موہڑہ)
اپریل کا آخری عشرہ اختتام پذیر ہونے کو تھا، پوری تحصیل سماہنی کی طرح اہلیان بنڈالہ بھی تیزی سے اپنے سال بھر کی فصل کو کاٹنے اور سمیٹنے میں مصروف تھے۔ عموماً تحصیل بھر میں گندم کی کٹائی 21اپریل سے شروع ہوجاتی ہے۔دن بھر کی مشقت اور محنت کے بعد سیر ی بنڈالہ کے باسی اپنے گھر کے صحنوں میں چارپائیاں بچھائے سوچکے تھے۔ سیری بنڈالہ عین کنٹرول لائن پر واقع ہے بلکہ محض چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ آج سے بائیس سال قبل نہ تو گھر وں کی چار دیواری بنانے کارواج تھا اور نہ ہی کسی واردات یاچوری چکار ی کاڈر ہوتاتھا لہذا پوری تحصیل کے لوگ بے فکر ہوکر اپنے گھر کے صحنوں میں رات گزارتے تھے۔ اور یہ بالکل عام سی بات تھی لیکن سیری گاؤں کے دو گھرانوں (ماسٹر زبیر شہید اور حاجی کالاخان شہید) کے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ آج کی رات ان کے لیے قیامت ثابت ہوگی۔حاجی کالاخان شہید کے بھر میں توان کے عزیز واقارب بھمبر سے بھی آئے ہوئے تھے۔ 26 اور 27 اپریل کی رات ساڑھے گیارہ بجے انڈین بزدل بلیک کیٹ کمانڈوز نے تمام آئینی اور اخلاقی قوانین کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے سرحد کو عبورکیا اور درندگی وسفاکیت کاایساکھیل کھیلا جو رہتی دنیا تک ہندوؤں کے بدنما اور بدبودار چہرے کی یاددلاتارہے گا۔ نیز ان کے انسانیت کے نام نہاد دعوی کی کلی نفی کرتارہے گا۔
کنٹرول لائن سے بالکل متصل دونوں گھروں کادرجنوں کمانڈوز نے محاصرہ کرلیا اور پہلے ماسٹر زبیر،بیوی،معصوم بچوں کوشہید کردیا پھر کالاخان کے گھر کارخ کیا اور وہاں موجود تمام افراد کو خنجروں کے وار کر کے شہید کردیا۔ دونوں گھر وں میں موجود تمام افراد کو اس بے دردی اور سنگدلی سے کاٹاگیا کہ نہ تو کسی خاتون کو بخشا گیا نہ کسی معصوم بچے پر کوئی رحم روارکھاگیا۔ انٹیلی جنس اداروں نے بعد میں اس بات کابھی سراغ لگالیاکہ سوئے افراد پر کوئی خاص قسم کابے ہوش کرنے والا سپرے کیاگیا تاکہ ان میں سے کوئی بھی جاگنے، چیخنے اور چلانے کے کوئی چانسز نہ رہیں۔ ان دوگھروں میں خون کی ہولی کھیلنے کے بعد کمانڈوز نے جب باقی گھروں کارخ کیا تو راستے میں واقع پولٹری فارم پر موجود چار نوجوانوں پولیس کانسٹیبل ذوالفقار علی، ڈاکٹر شاہین، غلام حسین اور عبدالغفار بھارتی کمانڈوز کی حرکت سے خبردار ہوگئے۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ کچھ کرپاتے کمانڈوز نے ان چاروں کو دبوچ لیا اور غلام حسین، عبدالغفار کو بھی شہید کرڈالا جبکہ ذوالفقار علی،ڈاکٹر شاہین زخمی ہونے کے باوجو د بھاگ کر گندم کے کھیت میں چھپ گئے بھاگنے کے دورانئے میں ان کے شور شرانے کی وجہ سے کمانڈوز واپس چلے گئے۔ زخمی ذوالفقار کواپنے گھر والوں کی سخت تشویش ہوئی اور وہ بے چینی کے عالم میں اپنے گھر پہنچا تو ایک قیامت اس کی منتظر تھی۔ اس کے سارے خاندان کو ہندؤ بنیئے نے مسلم دشمنی کی وجہ سے ذبح کرڈالاتھا۔ اپنے زخموں کو بھول کر ذوالفقار علی نے اپنے پڑوسی ماسٹر زیبر کو مدد کے لیے پکارا لیکن کوئی جواب نہ پاکر ان کے گھر جھانکا تو یہی رونگٹے کھڑے کردینے والا منظر تھا۔ ماسٹر زبیر اپنی پوری فیملی کے ساتھ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوچکے تھے۔ جائے وقوعہ سے ملنے والی گھڑی،خنجر اور پمفلٹ (جس پر خون کابدلہ خون تھا لکھاہواتھا) سے یہ ثابت ہوگیا کہ بھارتی کمانڈوز کی کارروائی تھی۔ 27 اپریل کی صبح (جوویلی سماہنی کے لوگوں کے لیے بالعموم جبکہ اہلیان سیری بنڈالہ کے لیے بالخصوص قیامت کی صبح تھی) جب ہزاروں افرا د نے ۲۲ شہدائے کے جنازے میں شرکت کی تو شہداکے گھروں میں ہوئی درندگی دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔دیواریں خون سے تر بتر تھیں،صحن میں موجود درختوں کے تنے اور پتے خون سے بھرے پڑے تھے۔گھروں کے صحن میں خون اس طرح بکھراپڑاتھا جیسے عید قربان پر قربان گاہ میں ہوتاہے۔
ان گذشتہ بائیس سالوں میں کنٹرول لائن پر بسنے والے نہتے مسلمانوں پر ظلم وستم کے بے شمار پہاڑ توڑے گئے ہیں ہر دوسرے گھر سے شہید یاغازی نے وطن اور اسلام سے اپنی اٹوٹ محبت کاثبوت دیاہے۔ بہت بڑی تعدا د نقل مکانی کرکے دوسرے شہروں میں منتقل ہوچکی ہے۔ لیکن ہندؤ بنیا یہ بات غور سے سن لے کہ کنٹرول لائن پر بسنے والے غیور مسلمان نہ تو اپنے شہداکے مقدس خون کو بھولے ہیں اور نہ 27 اپریل کو کی گئی وحشت اور درندگی کو۔ ان کاعزم توانا ہے، ان کی آزادی کی سوچ اور فکر مزید پختہ ہوئی ہے۔ اور وہ دن دو ر نہیں جب مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اپنی عید یں منائیں گے۔ ان شاء اللہ۔
اللہ رب العز ت سے دعاہے کہ شہدائے سیری بنڈالہ کے مقدس خون کے صدقے کشمیریوں کو ہندوؤں کی غلامی سے نجات عطافرمائیں اور آزادی کی صبح جلددیکھنی نصیب فرمائے۔ آمین
662