ھماری میراث۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
حضرت آدمؑ کو فرشتوں پر فضیلت محض علم کی وجہ سے دی گئی۔ پھر حضرت آدمؑ سے لیکر کچھ صدیوں پہلے تک مسلمانوں نے علم کو اپنی حقیقی اور جائز میراث سمجھ کر اس کی صحیح معنوں میں حفاظت کی اور آسمان کی آنکھوں نے علم کی برتری کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کا جھنڈا ساری دنیا سے بلند اور باوقار دیکھا لیکن جب مسلمانوں نے غفلت کی وجہ سے علم سے منہ موڑا تو پھر دنیاوی خوشحالی‘اقتدار‘کامیابی اور غلبے نے ان سے منہ موڑ لیا ار کل تک تاریکی میں ڈوبے یورپ کی چکا چوند کے پیچھے علم اور محنت کے سواء بھلا کون سی فلاسفی ہے؟
علم کی حقیقت مسلمانوں سے زیادہ بھلا کون سمجھ سکتا ہے کہ جن کے جد امجد سیدنا آدمؑ نے چیزوں کے نام بتا کر محض علم کی وجہ سے فرشتوں پر فوقیت حاصل کر لی تھی اور جن کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آنے والی پہلی وحی ہی ”اقرا“تھی۔”اقرا“کا سبق جب تک مسلمانوں کے دلوں میں زندہ و تابندہ رہا دنیا ان کی مطیع اور فرمانبردار رہی لیکن اقرا کے درس کے محو ہوتے ہی غلامی کا گھیرا ان کے گرد تنگ ہوتا گیا اور آج ساری امت مسلمہ غلام بنی بیٹھی پدرم سلطان بود والا مجنونانہ نعرہ لگا کر اپنی حزیمت مٹانے کی سعی نا کام کر رہی ہے۔
اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ روز اول سے ہی مسلمانوں نے علم کو ترجیح دینا شروع کر دی لیکن عباسیوں کے سنہری دور میں تعلیم کی سب سے زیادہ قدر کی گئی۔ عباسی خلفاء علماء و فضلا کو خاص مقام دیا کرتے تھے ان کے لیے بڑی بڑی مراعات تھیں۔ نتیجہ کے طور پر ساری دنیا سے مسلمان علماء ان ملکوں میں آ کر بسنے لگے اور ملک علوم و فنون کے زینے تیزی سے چڑھتا گیا۔
گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کی سب سے پرانی یونیورسٹی جامعہ القرویہ مراکش تھی مسلمانوں کی ترقی اور خوشحالی کا یہ سفر ساری دنیا کو متاثر کر رہا تھا یہاں تک کہ بغداد‘سمر قند و بخارا بھی علوم تابناک کی وجہ سے بن گئے اور ایک ایسا وقت آیا کہ آج کا ترقی یافتہ یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور امت مسلمہ پر علم کا سورج اپنی پوری تابناکی سے کرنیں بکھیر رہا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ترجیحات میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی اور ان کے درباروں میں علماء و فضلاء کی جگہ بھانڈوں‘میراثیوں اور رقاصاؤں نے لے لی۔ شمشیر و سناں کے دلدادہ طاؤس و رباب کے خوگر ہو گئے۔ اور حقیقت میں طبلے کی تھاپ پر تھرکنے والی قوم بہادری‘ہنرمندی اور خود داری جیسے اوصاف سے عاری ہوتی ہے اور ایسی قوم کو غلام بنانا نہایت آسان کام ہے۔
اہل یورپ نے مسلمانوں کی تاریخ کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد ان کو ہمیشہ کے لیے محکوم رکھنے کا سب سے آسان فارمولہ ڈھونڈا ہے کہ انہیں ذہنی غلام بنا لو۔جسمانی غلام کبھی نہ کبھی تو اپنے دل میں آزادی کا جوش‘جذبہ لا سکتا ہے لیکن ذہنی غلام اس سوچ سے عاری ہوتا ہے اور آج بد قسمتی سے ساری امت مسلمہ بتدریج ذہنی غلامی کا شکار ہے کیونکہ مقابلے کے دور میں مسلمانوں کے لیے علم کی اہمیت جتنی آج ناگزیر ہے اس سے قبل ہر گز نہ تھی۔
دنیا کے امیر ترین مسلم ممالک یعنی عربوں میں بھی اچھی گاڑی‘اچھے مکان‘خوبصورت اور نئی نویلی دلہنوں‘اونچی عمارتیں بنانے‘اونٹ ریس جیسی فضول اور بچگانہ عادات پختہ ہو چکی ہیں دنیا کی بلند ترین عمارت بر ج الحلیفہ بنانے والوں یا چار پانچ ستارہ ہوٹلوں کے مالکان مسلمانوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان کی عمارت و ہوٹل دنیا کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی ہوتی‘دنیا بھر سے ماہرین کو بھاری مراعات دے کر یہاں بلایا جاتا اور ایک بار پھر علم و تحقیق کے میدان میں مسلم دنیا اپنا مقام بناتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی مستقبل میں ہو سکتا ہے کیونکہ ذہنی غلام کبھی ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی ترجیحات میں ”علم“کہیں بہت نیچے اور بے مقصد و بے معنی چیز ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
842