موت باٹنتے گوالے،دودھ کی کمپنیاں اور حکومت
میرے ایک دوست اور عزیز کوبار بار الٹی اور قے ہوجاتی تھی۔ ان کے گھر والوں نے ہرایک چیزکوسائنسی حفظان صحت کے اصولوں کے تحت صاف کیا لیکن کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوسکا۔ چونکہ ان کی بیگم بھی ہولی فیملی ہسپتال میں ڈاکٹر تھیں لہذا نہوں نے بھی اپنے سنیئرز سے رابطہ کیا لیکن تمام تر کوششوں کاماحصل ناکامی اور مایوسی ہی رہا۔ ان کی کھانے پینے کی تمام چیزیں بد ل دی گئی تھیں سوائے ایک دودھ کے، جسکا سائنسی تجزیہ کرواناباقی تھا۔ ان کے گھر پر جوگوالادودھ دیتاتھا وہ انتہائی نفیس اور پرہیزگار انسان تھا۔ وہ جب دودھ ابالتے اس پر بالائی کی ایک موٹی سی تہہ جم جاتی۔ میرادوست چونکہ ملک کی ایک حساس سائنسی لیبارٹری میں کام کرتاہے لہذااس نے اسلام آباد کی بہت اعلیٰ لیبارٹریز سے دودھ کی جانچ کروائی۔ رپورٹ کے مطابق جو کچھ دودھ میں تھا وہ تو لوہے اور سٹیل کے بنے انسان کو پگھلادینے کے لیے کافی تھا۔ قصور بے چارے دودھ بیچنے والے کانہیں تھا بلکہ ان ناجائز کاروبارکرنے والوں کاتھا جو انہیں گندہ اور مضر صحت دودھ دیتے اور یہ دودھ بیچتے چلے جارہے تھے۔
اصل قصور ہمارے حکمرانوں کاہے جنہوں نے آج تک اس اہم چیز کی جانچ پڑتال کے لیے کوئی لیبارٹری قائم نہیں کی۔ پتہ نہیں ہم کیاکھااور پی رہے ہیں اور زندہ ہیں؟ اسی اثناء میں مجھے ڈاکٹر رانا اخلاق وفاقی سیکرٹری برائے لائیوسٹاک اور ڈیری کاایک نیوز اسٹیٹمنٹ ملا جس میں موصوف کاکہناہے کہ پاکستان میں زیادہ تر کھلا اور پیک دودھ مضر صحت ہے۔ نیز مزید فرماتے ہیں کہ ٹیٹراپیک بیچنے والی کمپنیاں ایک کلو دودھ میں کیمیکل اور دوسری مضر صحت چیزیں ڈال کر اس سے 39 کلوگرام دودھ بناتی ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ وطن عزیز میں پیک اور کھلے دونوں دودھ کے ہزاروں سیمپل چیک کئے گئے جس میں سے 75 فی صد مضر صحت پائے گئے۔
پنجاب حکومت نے کچھ عرصہ پہلے کھلے اور پیک دودھ کے 19,715 سیمپل چیک کیے جن میں سے 17,525 نہ صرف مضر صحت تھے بلکہ ان میں ایسے ایسے کیمیکل ڈالے گئے تھے کہ جن کے بارے میں جان کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ آخر پاکستان کے کروڑوں عوام کس طرح زندہ ہیں؟ اس دودھ میں یوریاکھاد 30 فی صد، سنگھاڑہ 40 فی صد، خراب اور گندہ کھانے کاتیل 70 فی صد، ناخالص پانی 50 فی صداس کے علاوہ پینسلین،ہیرریمونگ پاوڈر، کھانے کاسوڈااور دوسرامضر صحت کیمیکل ڈالاجاتاہے۔ ان کیمیکل سے جوبیماریاں جنم لیتی ہیں ان میں ہپاٹائٹس،گردوں کافیل ہونا، معیادی بخار اور دوسری لاتعدادبیماریاں شامل ہیں۔ ایک طرف آپ دیکھیں تو بڑی موذی امراض میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آتی جارہی ہے جبکہ پاکستان میں یہ بیماریاں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ صرف یرقان اور کینسر میں بے پناہ اضافہ اسی طر ف اشارہ کرتاہے صرف یہی بس نہیں بلکہ بعض ناعاقبت اندیشن گوالے تو دودھ میں سٹرائیڈز ڈالتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔
ان تمام حقائق کی تصدیق پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے چیئرمین، چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی کی ہے۔ پاکستانی قوم جو پہلے ہی ان گنت مسائل کاشکارہے کیسے ان اضافی مشکلات کی متحمل ہوسکتی ہے؟ حکومت کوچاہیے کہ وہ کھلااور پیک دونوں قسم کے دودھ کے چیک اپ کے لیے کوئی طریقہ کار وضع کرے تاکہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے یہ درندے اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں ورنہ ہم اپنے ہاتھوں اپنامستقبل اندھیر کردیں گے۔
765