افسانہ
خراج
مدثر یوسف پاشا ضلع بھمبر آزادکشمیر
اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن جلن اور درد نے اسے دوبارہ آنکھیں بندکرنے پر مجبور کردیا۔ بینائی چلے جانے کے خوف نے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑادی،بے بسی سے اس کے آنسو بہنے لگے اور وہ گھبراکردوبارہ لیٹ گیا۔ بیٹا! اُٹھو اور آہستہ آہستہ آنکھیں کھول کر دیکھنے کی کوشش کرو تاکہ پتہ چلے کہ آ پ کی آنکھیں کتنی متاثرہوئی ہیں؟مہربان اور شفیق سی مانوس آواز ڈاکٹر طلحہ کی تھی جو سرینگر کے مرکزی ہسپتال میں آنکھوں کے معالج تھے۔ اس نے سوچا، لیکن آنکھوں کے ہسپتال میں میراکیاکام؟ تب اسے یاد آیا کہ وہ تو اپنے سکول کے بچوں کے ساتھ ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک تھا۔ ہرطرف سے ایک ہی آواز آرہی تھی سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد، لے کررہیں گے آزادی،ہے حق ہمار اآزادی، بچے مانگیں آزادی، بوڑھے مانگیں آزادی، مائیں مانگیں آزادی،چھین کے لیں گے آزادی، ہندوستانی کتو کشمیر ہماراچھوڑدو، ظالمو حساب دو کشمیر ہماراچھوڑدو، پھر اسے یاد آیاکہ احتجاجی ریلی میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک تھے گذشتہ دوماہ سے شہید وانی کے مقدس اور قیمتی لہو سے گویاتحریک میں نئی جان پڑ گئی تھی۔ دس لاکھ سے زائد بھارتی فوج اپنے آپ کو مظلوم اور نہتے کشمیر یوں کے سامنے محض بے بس اور مجبور سمجھ رہی تھی۔ لوگوں کے جذبے آرمی کے حوصلوں پر ضرب کاری ثابت ہورہے تھے۔ہرجگہ کرفیو، ہرجگہ پلیٹ گن کابے جااستعمال، گولی باری،لاٹھی چارج، کریک ڈاؤن معمول کی بات تھی گذشتہ دوماہ کے کرفیو نے پوری وادی میں تقریباً غذائی قلت کی سی صورت حال پیداکردی تھی لیکن آزادی کے متوالے تو گویاآزادی سے کم کسی چیز کولینے،ماننے پرتیار نہیں تھے۔ اسے یاد آیا کہ کشمیریوں کے نعروں کاجوش بڑھتاجارہاتھا تو دوسری طرف قابض ظالم بھارتی فوج کابلڈپریشر بڑھتاجارہاتھا خود کو دنیا کی بہترین اور مایہ ناز کہلانے والی فوج کے چھکے جس طرح وادی میں کشمیریوں نے چھڑادئیے تھے اس سے ان کے عالمی امیج پربہت برااثر پڑاتھا۔ اپنی خفت مٹانے اور ناکامی چھپانے کے لیے بھارتی افسران نے ان تمام ہتھیاروں کااستعمال جائز کرلیاتھا جنہیں دنیا اور اقوام متحدہ استعمال کرناانسانیت کے خلاف ظلم سمجھتے تھے اس نے دیکھا کہ کئی سو فٹ دور کھڑے بھارتی فوجیوں نے ایک دم مجمع کی طرف دوڑ لگادی اور تھوڑاقریب پہنچ کروہ سینکڑوں فوجی رک گئے یکایک ان سب نے پلیٹ گنیں نکال کر معصوم کشمیریوں پر چلانی شروع کردیں۔ ہرطرف چیخ وپکار مچ گئی۔ لوگ چھروں سے زخمی ہوکرگرنے لگے تب اسے بھی ایسالگا جیسے کسی نے جلتا ہوا انگارہ اس کی آنکھوں میں ڈال دیاہو۔ یہ جلن اور کڑھن کتنی محسوس ہوئی اسے یاد نہیں اب اسے ہسپتال کے بستر پرہوش آیاتوسارے مناظر اس کے سامنے ایک ایک کرکے آنے لگے۔ بیٹا! آپ شیر ہیں شیرتوکسی سے نہیں ڈرتے نہ گھبراتے ہیں۔بالکل آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں تاکہ میں ان کامعائنہ کرسکوں۔ اس نے دوبارہ بالک آہستہ آہستہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کی درد کی شدت کی وجہ سے اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ اپنی پوری کوشش کے باوجود اس کی آنکھیں آدھی کھلی ہوئی تھیں لیکن یہ کیا؟ آدھی کھلی آنکھوں کے باوجود اس کے سامنے اندھیرے کی چادر تنی ہوئی تھی سیاہ کالی رات جیسی! کیا میں عمر بھر کے لیے معذور ہوچکاہوں۔ بیٹا! کیا آپ کو میری یہ انگلیاں نظر آرہی ہیں؟ڈاکٹر صاحب کی آواز نے ایک بارپھراسے جگا دیا اس نے پورازور لگاکر دیکھا گو اس سے اس کی آنکھوں کے درد اور جلن میں حددرجہ اضافہ ہوگیا اسے یوں لگنے لگا جیسے کوئی چھوٹی کنکریاں اس کی آنکھوں میں ڈال کر انہیں رگڑرہاہے۔ نہیں ڈاکٹر انکل مجھے کچھ نظرنہیں آرہا؟یہ کہہ کراس نے زور زور سے روناشروع کردیا۔ وارڈ میں موجود اس کی ماں جو ضبط کاپہاڑ بنی بیٹھی تھیں اپنے بیٹے کی بینائی چلے جانے پر پھوٹ پھوٹ کررونے لگیں۔ وہ اس وارڈ میں اکیلانہیں تھا کشمیر کے ہرسرکاری،پرائیویٹ ہسپتال میں پلیٹ گن سے متاثر ہونے والے سینکڑوں کشمیری موجودتھے۔ بھارتی مظالم کے سامنے ہلاکو اور چنگیز خان کی روحیں شرماکرکہیں چھپ گئی تھیں۔ لیکن غاصب اور ظالم بھارتی فوج طاقت کے گھمنڈ میں کشمیریوں کوخوفزدہ کرکے آزادی جیسی نعمت مانگنے سے باز رکھنے کاجوخواب دیکھ رہی تھی اسے دیوانے کاخواب ہی کہاجاسکتاتھا۔ ڈاکٹر نے اپنے پاس موجود تمام جدیدآلات سے اس کی زخمی آنکھوں کامعائنہ کیالیکن ابتدائی چیک اپ سے یہی لگ رہاتھا کہ وہ اور اس کے مزید بیس کشمیری بھائی ہمیشہ کے لیے بینائی جیسی نعمت سے محروم ہوچکے ہیں او ربقیہ زندگی انہیں اب دوسروں کے سہارے گزارنی ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس کانام حیدر تھا وہ مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں رہتاتھا اس کے ابو استاد تھے اور امی گھریلو لیکن مذہبی خاتون تھیں۔ وہ چار بہن،بھائی تھے حیدر ان سب سے چھوٹاتھا اور کلاس ہفتم میں زیر تعلیم تھا آنکھ کھولتے ہی اسے احساس ہوگیا کہ وہ توغلام ہیں کیونکہ ہرسو گز کے فاصلے پربنا بنکر، جگہ جگہ تلاشی،لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوجی، ایجنسیاں یہ سب بتارہے تھے کہ وہ آزادنہیں ہیں۔ اس نے سکول جاناشروع کیا تو تحریک آزادی کشمیر اپنے جوبن پرتھی لوگ دیوانہ وار اپنی جانیں اس مقدس تحریک میں پیش کرکے سرخروہورہے تھے۔ کبھی کسی کیمپ پر مجاہدین کی یلغار اور بھارتیوں کے مردارہونے کی خبر ملتی اور کبھی کسی کیمپ پر۔ ان خبروں کے سنتے ہی کشمیری سڑکوں پر آجاتے اور آزادی کے نعرے لگانے شروع کردیتے۔پھرہندؤ فوج اپنی شرمندگی مٹانے اورذلت کاداغ دھونے کے لیے کریک ڈاؤن کرتی۔ گاؤں کے گاؤں جلادئیے جاتے مردوں کوشہید،عورتوں کوبے آبرو،فصلوں،کھیتوں کو تباہ وبرباد کرکے بھارتی سامراج اپنے تئیں یہ سوچنے لگتا کہ اس نے ایک کروڑ سے زائد کشمیر یوں کو خوفزدہ کردیاہے اب وہ اس کے ساتھ الحاق کرنا پسند کرلیں گے لیکن دوسرے دن کشمیری زیادہ جوش اور جذبے سے باہر نکلتے اور بھارتی درودیوار ان کے تکبیر کے نعروں سے دھل جاتے۔
حالات میں سختی اور بگاڑ پیداہوتاچلاجارہاتھا ہردوسرے،تیسرے دن کسی مجاہد کی شہادت،کسی عفت مآب خاتون کی آبروریزی یاوحشیانہ تشدد کیخلاف پوراکشمیر سڑکوں پرہوتا۔ بھارت نے میڈیاکوسچ لکھنے اور دکھانے سے منع کررکھاتھا لیکن کرفیو، کریک ڈاؤن اور شہادتوں کے لامتناہی سلسلے نے کشمیریوں کے دل میں جذبہ آزادی کو مزید ہوادے ڈالی تھی اور وہ آزادی کے سوا کسی دوسرے آپشن کوقبول کرنے کے لیے ہرگزتیار نہیں تھے۔ بھارتی فوج ان گھرانوں کیساتھ خصوصی دشمنی رکھتی تھی جن میں مجاہدین کے حامی ہواکرتے تھے ویسے تو ساراکشمیر مجاہدین کو اپنا نجات دہندہ اور محمدبن قاسم سمجھ کرعزت واحترام کرتاتھا ہرکوئی مجاہدین کواپنے ہاں رات گزارنے، ان کی خدمت کرنے ان کے ہاتھ چومنے، ان کی کسی بھی قسم کی مدد کرنے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ لیکن حیدر کے گھرانے کو ایک اور بڑااعزاز حاصل تھا،حیدر کابڑابھائی،کمانڈر سجاد سالوں بھارتی سپاہ کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد شہادت کے عظیم مرتبے پر فائزہوچکاتھا اس کے ابو گو کہ پچاس سے زائد سال ہوچکے تھے لیکن ان کاجوش اور جذبہ قابل دیدتھا۔ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی خود کوتحریک سے دور رکھنے یاچھپانے کی کوشش نہ کی تھی۔آئے روز ان کے گھر کی تلاشی ہوتی رہتی تھی کیونکہ مجاہدین کے لیے وہ گھر سب سے محفوظ ٹھکانہ تھا۔ پکڑدھکڑ اور مارپٹائی بھی معمول کاحصہ تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭
کسی اور گھر میں اتنی ابتری ہوتی تو اس گھر کے بچے،بڑے سب سہم جاتے اور بھارتی فوج کاجاسوس بننے میں فخر محسوس کرتے لیکن سارے کشمیر کی طرح حیدرکی ماں، بہنوں اور باپ کاجذبہ فولادی تھا وہ آزادی کے لیے بھائی کی قربانی دے چکے تھے۔ اور تحریک آزادی کشمیر میں ایسے گھرانے بھی تھے جن کے سارے کے سارے بیٹے اللہ میں وطن کی آزادی کی تلاش میں اپنی زندگیاں پیش کرکے سرخرو ہوچکے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭
شہدا کے مقدس لہو کی برکت سے تحریک آزادی کشمیر اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں تھی کہ وانی کی شہادت نے گویا کشمیریوں کی امنگوں کو نیاجوش اور جذبہ دے دیا ان کے خوابوں کو ست رنگی کردیااور انہیں اپنی منزل قریب تر نظر آنے لگے۔ تحریک میں ایسی تیزی اس سے پہلے تو کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ کشمیریوں کے جذبہ آزادی سے خوفزدہ ہوکر بھارتی فوج نے پوری وادی میں کرفیو لگاکرحالات قابو میں کرنے اور دنیا کی توجہ کشمیر سے ہٹانے کی کوشش تو ضرور کی لیکن یہ سودا بھی اسے مہنگا پڑا۔ کشمیر ی پورے جوش وخروش سے میدان میں آگئے۔ جان دینے سے تو وہ بھلا پہلے کب گھبراتے تھے لیکن اب تو انہوں نے بھی طے کرلیاتھا کہ آزادی کے سو ا کسی دوسری بات کو نہیں مانیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حیدر علی کوہفتے،عشرے بعد ہسپتال سے فارغ کردیاگیا اس کے ساتھ اور بھی بیس کشمیری جوان تھے جنہیں ڈاکٹر ز اپنی پوری کوششوں کے باوجود بینائی لوٹانہیں سکے تھے۔ گو انہوں نے اپنی سی کوشش کرتے ہوئے آپریشن کیے تھے لیکن محض چھرے نکالنے کے انہیں کوئی خاطر خواہ فائدہ ہرگز نہیں ہواتھا۔ کیونکہ پلیٹ گن سے نکلنے والے چھروں نے انہیں موقع پر بینائی سے محروم کردیاتھا۔ بس ڈاکٹر ز اپنی سی کوشش کرکے دیکھنا چاہتے تھے اوراس کانتیجہ صفر تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حیدر علی اوراس کے معذور ہونے والے ساتھیوں کاجذبہ جہاد اور آزادی کی لگن کم ہونے کی بجائے اور تیز ہوگئی ہے اور وہ اپنی جان کانذرانہ تک دینے کے لیے تیار ہیں کیونکہ وہ اپنی آنکھیں اس تحریک کو خراج کرچکے ہیں۔وہ دن دور نہیں جب انہیں آزادی جیسی نعمت سے میسر ہوگی۔ ان شاء اللہ
٭٭٭٭٭٭٭٭
770