876

کھانا — جی ہاں! وہی جس کانام سنتے ہی

مخولیا……”کھانا“
تحریر:مدثریوسف پاشامدیراعلیٰ: سہ ماہی ”دستک“ سماہنی ضلع بھمبرآزادکشمیر
کھانا……………..جی ہاں! وہی جس کانام سنتے ہی مختلف ذائقے زبان کومحسوس ہوناشروع ہوجاتے ہیں۔ اورکھانے کی مہک نتھنوں میں آنے لگتی ہے۔ویسے بعض کے خیال میں زندگی کھانے سے جڑی ہوئی ہے لیکن شاید بعض افرا د زندہ ہی کھانے کے لیے ہوتے ہیں۔ اسی”کھانے“نے حضرت آدم ؑ او ر اماں حوا کوجنت کے مزے دار اور دلرباماحول سے نکال کردنیا جیسی وادی پرخار میں لاپھینکا تھا۔توا،تندور،چولہا،سلنڈر،اوون نیز پھلکے سے چپاتی اور ڈبل روٹی تک کے حسین سفر کی تاریخ جاننے کے لیے عمر نوحؑ چاہیے۔آپ تما م خواتین وحضرات نے بریانی،زردہ،قورمہ،پلاؤ،روسٹ،جنگلی پلاؤ،چکن کڑائی اور انواع واقسام کے کھانے نوش فرمائے ہوں گے لیکن آج کی نشست میں ہم آپ کوذرا وکھری ٹائپ کے کھانے کھلوائیں گے۔ارے حضرت!کھانے کے بارے میں اتنی تمہیدی گفتگو سن کرآپ کے منہ سے تورال ٹپکنے لگی۔کوئی بات نہیں! یہ نام ہی اتنادلنشین ہے کہ بس…………….
1۔ خیالی کھانا: یہ کھاناپہلے پہل عورتیں کھاتی تھیں لیکن ڈپریشن کے شکار مردوں نے اسے بھی مرعوب بنالیاہے۔دن بھرروزگار دفتروں کے چکر کاٹنے کے بعد شام کویہ کھانا بہت مزہ دیتاہے۔ جب ٹوٹی چارپائی کی ادوائین میں بیٹھ کر بندہ ائیر کنڈیشنڈ دفتروں اور گھروں کے خیالی کھانے کھاتاہے۔توایسے میں ایک محبوبہ کابھی ساتھ ہوتاہے۔جوپرستان سے آئی ہوتی ہے۔اور بے روزگار ونکمے حضرات پرازحد مہربان ہوتی ہے ویسے اس کھانے کی موجودہ مہنگائی کے دور میں اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔کیونکہ اس کھانے پرکچھ خرچ نہیں آتا۔
2۔ ہواکھانا: ہمارے ملک میں شایدہواہی وہ واحد چیز ہے جس پرٹیکس نہیں ہے۔اور ہوا کھانا بھی مفت کھانوں میں سرفہر ست ہے۔ آج کانوجوان میٹرک کے بعد ہواکھانا شروع کرتاہے۔ اور ماسٹرز کرلینے کے بعد تو وہ پکاہواخوربن جاتاہے۔پھر ہوائی کھانے کے ساتھ بطور سلاد دھکے بھی کھانے شروع کردیتاہے۔ دفاتر کی ہوا اوردھکے جیسی چٹ پٹی ڈشیں کھانے کے بعد بہت سے دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہیں اور پکڑے جانے پرجیل کی ہوا کھاتے ہیں۔مزید دلچسپی کاباعث یہ بات بھی ہے کہ ہواکھانے کے لیے ہواکاہونا ضروری نہیں۔بس نیت کاہونا کافی ہے۔
3۔ غیر ت کھانا: یہ کھانا ہماری اقدا روروایات کااہم حصہ تھا اور اسے نہ کھانے والے بہت کم تھے لیکن اب ڈش اورکیبل کی بدولت یہ غائب ہوتی جارہی ہے اور اگر اس کے غائب ہونے کی یہی رفتاررہی تو پھر آثار قدیمہ والوں کو بلاکراسے تلاش کروانا پڑے گا۔ پاکستان میں بعض جگہوں پر اس کے کھانے پر پابندی ہے۔یہی وہ واحد چیز ہے جسے حکومت اورلیڈر نہیں کھاتے۔کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اس کا سب سے بڑا سرمایہ غیر ت کھاناہی ہواکرتاہے۔غریب اسے کھا کرہمیشہ دکھی،پریشان حال اورفکر مند رہتاہے جبکہ امیر سرکاری خزانہ کھاتے ہیں۔
4۔ ڈانٹ کھانا: افلاطون کے کسی دور پار کے رشتہ دار کا قول ہے۔ڈانگ (ڈنڈا) کھانے سے ڈانٹ کھانا بدرجہا بہتر ہے۔ ہاں اس کیلئے خمیر پختہ (سیمنٹ کا) اور ضمیر مردہ (فالج زدہ) ہونا شرط ہے۔ اس ڈش کی دوہری خوبی یہ ہے کہ یہ کھلائی بھی جاتی ہے اور پلائی بھی جاتی ہے۔ ہمچھوٹے ہوتے ہیں تو گھر والوں کی ڈانٹ کھاتے ہیں سکول میں استاد محترم ڈانٹ کھلاتے رہتے ہیں۔ کچھ بیچارے تو باس سے بھی کھاتے ہیں اور بعض کے مقدر میں تو گھر والی کی ڈانٹ بھی لکھی ہوتی ہے۔
5۔دھوکہ کھانا: یہ کھانا ہماری گھٹی میں شامل ہے گھر والے ہمیں چاند، تارے کہہ کر دھوکے میں رکھتے ہیں۔ ذرا بڑے ہوتے ہیں۔ تو دوستوں سے دھوکا کھانا پڑتا ہے۔ کئی ایک کو یہ ڈش ”محبوبہ“ سے بطور تحفہ مل جاتی ہے۔ شادی شدہ پہلے ہی دن دھوکہ کھاتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان اسے بڑی مہارت سے پکاتے اور کھلاتے ہیں۔
6۔مار کھانا: یہ ٹیڑھی کھیر کی طرح کا کھانا ہوتا ہے گو کہ اس کے اجزائے ترکیبی میں ڈانٹ کے عناصر بھی شامل ہوتے ہیں لیکن دیگر عناصر و مصالحہ جات مل کر اسے بڑا کھانا بنا دیتے ہیں۔ یہ واحد کھانا ہے جسے کھانے کے لیے تگ و دو کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ آپ کے مقدر کا لکھا آپ کو ضرور مل جاتا ہے۔ باقی کھانوں کی نسبت اس میں سائیڈ ایفیکٹس کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ مثلاً آپ کے ہاتھ کھانے سے انکاری ہو سکتے ہیں یا پھر آپ کے دانت دوسرا کھانا نہیں کھا سکتے غرضیکہ اس کھانے سے بچنے کیلئے نگاہیں نیچی، زبان یا اخلاق اور ہاتھوں پاؤں کا قابو میں رکھنا شرط ہے۔
7۔غصہ کھانا: جب ہمیں کچھ کھانا نہ آئے۔ تو ہم اسے کھاتے ہیں۔ کبھی کبھی بے بسی میں بھی اس کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً والدین سے مار کھانے کے بعد اوربیگم سے ”جھڑکیاں“یا ”نو لفٹ“ کا بورڈ دیکھ کر۔ یہ واحد کھانا ہے جو حرام ہونے کے باوجود باعث ثواب ہے۔ یاد رکھیئے اسے کھانے سے پہلے غور سے پڑھ لیجیے کہ جس پر آپ اسے کھا رہے ہیں۔ وہ آپ سے زیادہ صاحب حیثیت تو نہیں __؟
8۔کچھ کر کے کھانا: یہ بہت مہنگے کھانوں میں شمار ہوتا ہے۔ من حیث القوم سب غیرت دلانے کیلئے یہی کہتے ہیں کہ کچھ کر کے کھاؤ۔ لیکن خدانخواستہ ہم کچھ کر کے کھانے والوں میں سے ہوتے تو آج نجانے کہاں ہوتے؟ ہمیں جو کچھ کرنا چاہیے۔ اس سے کنی کتراتے ہیں۔اور جس پر شرمندگی ہونی چاہیے۔ اسے دھوم دھڑکے سے کیے جا رہے ہیں۔
بہر کیف دوستو! ……کیسے لگے یہ غیر روایتی کھانے ……؟ہم نے آپ کو متعدد ورائٹیوں سے متعارف کروایا ہے مذکورہ بالا میں سے اپنی مرضی کا کھانا چن لیجیے اور مزے سے ……کھا یئے لیکن دھیان سے……؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں