855

خدائے مہربان…….اللہ تعالیٰ کی رحمت ومحبت سے بھری کہانی

افسانہ
خدائے مہربان
افسانہ نگار: مدثر یوسف پاشا ؔ
موسم بہار شروع ہوچکاتھا لیکن درخت خزاں رسیدہ ہی دکھائی دے رہے تھے امسال بارشیں بالکل ہی نہیں ہوئی تھیں لہذاشاید ہی کوئی اکادکا خوش قسمت درخت ہوگا جوکہ ہرابھر اہووگرنہ سب کاحال براتھا۔ یاشاید وہ درخت بہار کی آمد کی اطلاع دے رہاتھا جس کی کوئی خصوصی دیکھ بھال کرنے والا تھا۔ فروری کے اختتام پر ہی دھوپ کی تمازت سہی نہ جارہی تھی محکمہ موسمیات کے ماہرین نے اعلان کردیاتھا کہ اس رواں سال ایک بارش بھی برسنے کاامکان نہیں ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے پاکستان کے انسانوں اور جانوروں کے لیے مشکل وقت آنے والاتھا نیز فصلوں (خصوصاً بارانی علاقے میں)کے نہ ہونے کاقوی امکان اور قحط سالی کاخطرہ تھا۔
ملک کے دوردراز پسماندہ علاقوں کے لوگ خصوصاً سخت مشکلات کاشکارتھے۔ان کو پانی حاصل کرنے کے لیے بہت دور دور تک جاناپڑتاتھا۔اتنا لمباسفر کرنے کے بعد بھی پانی کے حصول کے ذرائع بس جوہڑ اور تالاب تھے چونکہ سخت گرمی اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے چشمے خشک ہوچکے تھے۔کل تک ہر فرد جو روٹی،روزی کے چکر میں پڑاتھا اب ہر کسی کو پانی کے حصول کی فکر تھی۔وڈیرے،بیوروکریٹ اور افسر شاہی اپنے گھر والوں کو اپنی رشوت اور حرام کی کمائی سے باہر سے پانی منگوالینے کے جھانسے دے رہے تھے اور غریب لو گ صرف اپنے ر ب کو اس کی رحمانیت کاواسطہ دے کر پانی مانگ رہے تھے۔
ایک مہینہ مزید گز رگیا۔مارچ کے مہینے میں اتنی گرمی،گویاگرمی کاپاکستان میں عالمی ریکارڈ ٹوٹ گیاتھاکیونکہ شاید ہی پوری دنیا میں اتنی سخت گرمی کہیں اور پڑی ہو۔ گذشتہ سالوں میں اہلیان پاکستان مارچ کے مہینے میں یاتو بسنت کے مزے لے رہے ہوتے تھے یاپھر اپنی قوم کی بیٹیوں کو سٹرکوں پر دوڑا کراپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچایاکرتے تھے۔لیکن اب کی بار تو انہیں بہت ہی بڑی مشکل نے آن گھیر اتھا۔بڑے بڑے سرمایہ داروں کی جیبیں بھی باہر سے پانی منگواکر ڈھیلی ہوتی چلی جارہی تھیں۔ دوسرے باہر والوں نے بھی آزمائش کی اس گھڑی میں پانی پر بھاری ڈیوٹی عائد کرکے رہی سہی کسر نکال دی تھی۔
اس افراتفری کے عالم میں عوام حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اس کڑی دھوپ اور سخت گرمی میں سڑکوں پر آنا بھی ایک کڑا امتحان تھا۔دوچار مظاہروں کے بعد عوامی غصہ ختم ہوگیا دوسری جانب حکومت نے پانی کی فراہمی کی ذمہ داری سے انکار کرتے ہوئے یہ بیان جاری کیاکہ پوری دنیا بھی مل کر پانی کاایک گھونٹ بھی نہیں دے سکتی۔اس کاواحدحل اللہ رب العزت کے پاس ہے۔لہذاعوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اسی مہربان ذات سے رجوع کریں۔ملاکی دوڑ مسجدتک غریبوں کاتو پہلااور آخری سہار اصرف وہی تھا۔
ایک اور آزمائش بھر ا مہینہ گزرگیا۔گو کہ حکومت نے پوری دنیاسے پانی کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے مالی امداد کی اپیل بھی کی چندایک ممالک نے اپنی سی کوشش بھی کی کہ باہر سے کچھ پانی ملک میں بھیجا جائے لیکن بیس کروڑ لوگوں کو پانی فراہم کرنا صرف اس ذات کاکام ہے جس کاکوئی شریک نہیں وہ اکیلاہے۔اب تو ہزاروں انسانوں کے مرنے کی خبریں آنے لگی تھیں۔ جانور پہلے ہی مرچکے تھے کیونکہ انسان نے پانی کے معاملے میں خود کوترجیح دی۔ جائیدادوں کے وارث اٹھتے چلے جارہے تھے۔ان دنوں انسان غار کے زمانے والاوحشی بن گیاتھا بے شمار لوگو ں کومحض پانی کے ایک گلاس کی خاطر موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔لوگوں کے علم میں جہاں کہیں پانی کے متعلق کوئی خبر آتی وہ وہاں تک دوڑ جاتے اس مہاگرو کے پاؤں پڑتے اپنی تمام جمع شدہ پونچی اس کے چرنوں میں رکھتے اور گڑگڑاکرپانی کاایک گلاس مانگتے۔
پاکستانیوں نے اپنی فطرت کے عین مطابق آزمائش کی ا س گھڑی میں بھی دونمبری کے نئے نئے ریکارڈ قائم کرڈالے تھے۔کیونکہ پانی کے نام پر تارکول،مٹیکے تیل اور پانی سے ملتی جلتی چیزیں پانی ملاکر مہنگے داموں پانی کے نام پر بیچنی شروع کردی تھیں۔ اس زہر کے پینے کی وجہ سے بھی ہلاکتوں میں اضافہ ہوتاچلاجارہاتھا۔ مرنے والوں کے ساتھ اظہار افسوس کابھی کسی کو ہوش نہیں تھا کیونکہ اپنی جان بچانے کے لیے ان پانی کی تلاش تھی۔
کاروبار حیات رکنے کے قریب آن پہنچاتھا لوگ پیاسے مررہے تھے۔کھانایاد ہی نہیں رہاتھا۔ہر طرف بس پانی کی چند بوندوں کے لیے دوڑ لگی ہوئی تھی۔بالکل اسی طرح جیسے پانی کے قحط سے پہلے ڈالروں کے لیے لگی ہوئی تھی۔تبھی ایک صبح رات بھر کے تھکے ہارے پیاسے انسا ن جاگے توسب کے صحنوں میں ایک ہی رنگ اور ایک ہی رسم الخط کے بے شمار پرچے پڑے ہوئے تھے۔جوخودپڑھے لکھے تھے انہوں نے تو خودپڑھ لیا اور جو پڑھا نہیں جانتے تھے وہ پڑھے لکھے لوگوں کے پاس جاپہنچے۔لکھا تھا ”فرمان خداوندی! عظمتوں اور رفعتوں والے عظیم رب کی طرف سے اہلیان پاکستان کے نام! میں نے انسان کومحض اپنی عبادت کے لیے پیداکیا۔شیطان مردود کے ایک انکار نے اسے میری نظروں سے گرادیا۔میں نے انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے انہی میں سے برگزیدہ افراد کو چنا جنہوں نے حتی المقدور لوگوں کو میری طرف بلانے کی کوشش کی۔اور پھر بھی جن لوگوں کو ان کی سرکشی اور بغاوت نے میرے سامنے جھکنے سے روکا میں نے انہیں ایسے عذاب میں مبتلاکیا کہ آسمان بھی تھرااٹھا۔امت محمدیہ ﷺ جسے شاید اپنا غرور سمجھتی ہے کہ باقی امتوں کی تو شکلیں بگڑ گئیں لیکن ہمیں کچھ نہ ہوا۔سچ تو یہ ہے کہ میں نے اپنے محبوب ﷺ سے وعدہ کررکھا ہے کہ ان کی امت کو ایک ہی جھٹکے میں ختم نہیں کروں گا وگرنہ وہ میری گرفت سے تو باہر نہیں نکل گئے۔اور نہ ہی ان کے کمپیوٹر اور ایٹم بم انہیں میری گرفت سے بچاسکتے ہیں۔
پھر تم لوگوں کی سرکشیاں اتنی بڑھ گئیں کہ ماں،بہن کی تمیز ختم ہوگئی۔عورتیں بے پر دہ بازاروں کی رونق بن گئیں۔ تمہارے ہاں بھی مقابلہ حسن سرکاری سرپرستی میں ہونے لگے۔بسنت کامنحوس تہوار مناتے ہوئے تمہیں کبھی میرے احکام یادنہ آئے۔تمہارے اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی واحد چیز نماز تمہیں یاد ہی نہ رہی۔تمہارے عالموں جن کی ذمہ داری ہی یہی ہے کہ جب تم بھٹکو گے وہ راہ راست دکھائیں گے۔میراعذاب یاد دلاکر میرے قریب آنے کی ترغیب دیں گے۔ بھی اپنا فرض بھول بیٹھے۔اور اب پانی کے اس تین مہینے کے عذاب میں کسی بھی بندے کے منہ سے یہ ہرگز نہیں نکلا کہ یہ سب ہمارے گناہوں کی سز اہے۔چلو اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتے ہیں۔ میں نے اپنے کلام میں فرمادیاہے کہ میں ایک بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتاہوں اور جو میراذکر تنہائی میں کرتاہے میں اس کاتذکر ہ فرشتوں کی پاک محفل میں کرتاہو ں اور جو میری طرف ایک قدم بڑھتاہے میں اس کی طر ف دوڑ کرآتاہوں۔ایک دوسرے کو بھائی کہنے کے باوجو د تم ایک دوسرے کے حقوق چھینتے رہے۔لالچ،جھوٹ،فریب،کینہ،حسد اور بغض غرض کہ دنیا کی ہربرائی نے تمہارے ہاں ڈیرے ڈال لیے۔ اتنے سالوں تک میں نے تمہیں مہلت دی کہ شاید تم اور تمہار ی حکومتیں عبرت پکڑیں اور جس مقصد کے لیے اس ملک کو حاصل کیا تھا اس پر آجائیں۔ بلکہ تمہاری حکومتوں نے تو کلمے اور اسلام کی تجربہ گاہ بنائے جانے والے ملک کو اتاترک کادیس بنانے کی ٹھان لی۔ سو اب میرا یہ حکم ہے کہ پانی صرف اسے ملے گا جو پانچ وقت نما ز باجماعت اداکرے گا۔ ہرقسم کی برائی سے دور رہے گا۔ غرض کہ صحابہ کرام ؓ کی تقویٰ والی زندگی اختیارکرے گا۔ اور جس کسی نے میراحکم توڑنے کی کوشش کی ساری دنیا مل کربھی اسے ایک گھونٹ پانی مہیانہیں کرسکے گی۔
لوگوں کے مردہ دلوں اور بے رونق چہروں پر جیسے بہار سی آگئی۔ اسلامی سوچ وفکر رکھنے والے لوگ جو اللہ کو بھول گئے تھے زیادہ خوش تھے کہ اللہ نے ان کی خطائیں معاف کرکے دوبارہ انہیں سدھرنے کاموقع فراہم کردیاہے۔ اسی دن ملک کے طول وعرض میں مساجد آباد ہوگئیں۔لوگ جب مساجد میں پہنچے تو وہاں وافر مقدار میں پانی موجود تھا۔انہوں نے سب سے پہلے پانی سے جی بھرکر غسل کیا اور کئی مہینوں کی جمی میل کچیل کواتارپھینکا۔ خوشبولگانے اور خوبصورت کپڑے پہننے کے بعد انہوں نے مساجد کارخ کیا۔قرآن کی تلاوت کی آواز نے چار سو سماں ساباندھ دیا۔ عورتوں نے گھر وں سے غیر ضروری نکلنے سے توبہ کرلی۔ ایک دوسرے کے خلاف غیبت،لالچ،بغض اور فریب کی جگہ پیار ومحبت نے لے لی۔رشوت کامکمل خاتمہ ہوگیا انصاف لوگوں کو ان کی دہلیز پر ملنے لگا۔ غرض کہ پاکستان واقعی ایک ماڈل اسلامی سٹیٹ بن گئی۔
ایک دن میں دارالحکومت سے گزر رہاتھا تبھی ایک پکارنے والے نے پکار کرفلاح اور کامیابی کی طرف بلایا میں نے عجیب منظر دیکھا کہ لوگ جوق درجوق مساجد کارخ کررہے ہیں دکانوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔وہ سب کھلی ہیں اور قریب کوئی پہرے دار بھی نظر نہیں آرہاہے۔ غرض کہ یہ تو حضرت عمر ؓ کے زمانے کی یاد تازہ ہوگئی۔ اور پھر اس سے پہلے کہ میں کچھ اور دیکھتا میری آنکھ کھل گئی۔ کتنا سہانا اور کتناخوبصورت خواب تھا۔اسلامی فلاحی مملکت پاکستان کاخواب جی ہاں یہ وہ سچا خواب ہے جس کی تکمیل کے لیے ہمارے آباؤاجداد نے لاکھوں جانوں اور عزتوں کی قربانی دی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ کوہماری عبادت وریاضت کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہ ہم محض اپنے فائدے کے لیے اس کانام لیتے ہیں اس کاذکر وتسبیح بیان کرنے والے اربوں کھربوں فرشتے اور دوسر ی مخلوقات ہمہ وقت محو ہیں۔اور اگر اللہ اپنی عبادت کروانے پر آجائیں تو پھر کسی کی جرات نہیں کہ وہ انکار کرسکے۔
ہمیں اس خدائے مہربان کی طرف دیکھنا چاہیے جو ہماری کوتاہیوں اور خامیوں سے صرف نظر کرکے برابر ہمیں نوازتاچلاجارہاہے۔ اور ہم ہیں کہ محض دنیا کی خاطر ستر ماؤں سے بڑھ کرمحبت کرنے والے کی نافرمانیاں کیے جارہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں