الحمدللہ رب العالمین!
مدثریوسف پاشا، تحصیل سماہنی
میں اپنی نوکری چھن جانے کی پریشانی میں مبتلا تھا مسائل تھے کہ ایک ایک کرکے منہ کھولے نگلنے کوتیار بیٹھے تھے۔ اولاً تو نئی نوکری کی تلاش، اس میں درپیش ممکنہ مسائل،ایڈجسٹمنٹ جیسے معاملات کوطے کرنے کی فکر اور پریشانی تھی دوسراگھر کے ماہانہ اخراجات،بچوں کی فیس، ادھار کی ادائیگی کی ترتیب، بجلی کے بلات اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ معاملات زندگی کچھ بہتری کی طرف چلے جاتے لیکن کرونا وباء اوراس سے پیداشدہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہرفرد پریشانی کاشکار تھا۔ دیہاڑی دار، مزدور، اور روز کاکام کرکے شام کوکھانے والے تمام مستقبل کے خوف سے گھبرائے ہوئے تھے۔ اب تو لمبی چوڑی خواہشات ختم کرکے صرف دواوقات کی روٹی مل جانا بڑی خوش قسمتی کی بات تھی۔ ویسے بھی کرونا پھیلانے والی طاقتیں تو ایک طرف اگلے تین چار سال تک اس وباء کے ختم نہ ہونے کی پیشن گوئیاں کررہے تھے ساتھ ہی ساتھ اس کی مستقبل قریب میں کوئی بھی ویکسین تیار نہ ہونے کی باتیں کرکے عام آدمی کی رہی سہی طاقت بھی ختم کرنے کاباعث بن رہے تھے۔
صبح شام ایک ہی فکر کھائے جارہی تھی کہ آنے والے کل کوکیابنے گا؟ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔ میں گھر پر ہی تھا کہیں آنا جانا تو ویسے ہی ممنوع قراردیاجاچکاتھا دوسراہمارے دیہی ماحول کوبھی شہر کی ہوالگ چکی تھی۔ لوگ بغیر غرض اور مطلب کے نہ تو دوسرے کوملتے تھے اور نہ حال احوال پوچھتے تھے۔ یہ عام دنوں کی بات تھی جسے کرونا نے بڑھا کر مزید خوفناک صورتحال سے دوچار کردیاتھا۔ میرے محلے کاایک ذہنی طور پرسادہ سافرد ہمارے گھر آیا اور بڑی حسرت آمیز صورت بناکربیٹھ گیا۔ مجھے یہی پریشانی کھانے جارہی تھی کہ وہ کہیں مجھ سے کچھ رقم بطور ادھار نہ مانک لے جسے دینے کی میں ہرگز پوزیشن میں نہیں تھا۔ کافی دیر کے بعد میں نے اس سے آنے کامقصد پوچھا وہ شرماگیا۔ میرادل بھی دھڑکنے لگا کہ پتہ نہیں وہ کیامانگ لے؟ اس نے شرماتے اور جھجکتے ہوئے جس چیز کاتقاضا کیاوہ نسوار کی ایک پڑیاتھی۔ ہفتہ میں ایک اور مہینے کی چار یعنی صرف چالیس روپے ماہوار کاسوال۔
تبھی میرے اندر سے آواز آئی توکتنا ناشکرا اور ظالم آدمی ہے جوتین اوقات کھانا کھاکر، نئے اچھے کپڑے پہن کر زندگی کے معاملات میں حصہ لے کر اپنے رب کاشکر اداکرنے والا نہیں بن سکا؟ ہروقت شکوؤں اور گلوں کی ایک پٹاری کھول کر بیٹھ جاتاہے اور تجھ سے عمل میں اچھے اور نیک انسان محض ایک نسوار کی پڑیا مل جانے پر راضی وخوش ہوجاتے ہیں۔
پورے ہیں وہی مرد جوہرحال میں خوش ہیں
اگر نعمتوں کاشمار کرناشروع کیاجائے تو آنکھیں جتنی بڑی نعمت اور انعام ہیں انہیں حاصل کرنے کے لیے جہاں بھر کے خزانے لٹائے جاسکتے ہیں۔ دل،دماغ غرض جسم کاہر عضو پکار پکار کر اپنے بنانے والے کے شکرانے کاتقاضا کرتانظر آتاہے۔
دوسرایہ وہ چالیس روپے ہیں جو ایک سفید پوش سے سفید پوش شخص کاصرف ایک بچہ نصف دن میں کھاجاتاہے۔ ہمارے لیے بھلے دس روپے،پچاس روپے اور سو روپے کی کوئی اہمیت اور وقعت نہ ہو کسی دوسرے فرد کے لیے وہ دس روپے زندگی کی کوئی ایک نعمت حاصل کرنے کاباعث بن سکتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ اپنی مصروف ترین زندگی میں سے چند ساعتیں نکال کردوسروں کے پاس بیٹھ کر ان کے دل کاحال جاننے کی کوشش کریں اور اپنی نعمتوں بھری زندگی میں سے محض ایک قطرہ دوسروں کے لیے وقف کریں وگرنہ کل قیامت کے دن مجبور لوگوں کاہاتھ اور ہمارا گریبان ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
565