900

بھوک……انسانیت کاسب سے بڑاالمیہ

بھوک……………….انسانیت کاسب سے بڑاالمیہ
اس وقت دنیا کوجن بڑے مسائل کاسامناہے ان میں سے ایک اہم انسانی مسئلہ بھوک وافلاس کابھی ہے۔یعنی دنیا میں انسان کے ترقی یافتہ ہونے کے دعوؤں کے باوجود آج بھی لاکھوں،کررڑوں انسان محض روٹی کوترس رہے ہیں۔اور انہیں دووقت کی جگہ ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔تمام علماء وسائنس دان اس مسلمہ حقیقت کومانتے ہیں کہ بھوک انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے جواسے ڈاکو،قاتل اور دہشت گردبنادیتی ہے۔انسان کواس کے مقام ومرتبے سے گراکرحیوان بنانے والی ظالم یہی بھوک ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 1.02ملین لوگ روزانہ بھوکے سوتے ہیں جبکہ دنیا کاہرچھٹا آدمی فاقہ زدہ ہے۔یہ حقائق انسانیت کی تاریخ کاسب سے بڑ االمیہ ہیں۔2009ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 3کروڑ سے زائد بچے بھی بھوک کاشکار ہیں۔اس کامطلب تو یہ ہوا کہ ہر چار سکینڈ بعدایک شخص بھوک کی وجہ سے موت کاشکار ہورہاہے۔ کل 25000پچیس ہزار افراد جن میں 18000اٹھارہ ہزار بچے ہوتے ہیں محض روٹی نہ ملنے کی وجہ سے دنیاسے چلے جاتے ہیں۔یہی تعداد ایک سال میں کروڑوں تک جاپہنچتی ہے اور یوں بھوک کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد انسانی خطرناک بیماریوں ایڈز،کینسر ودیگر سے کئی گنا زیادہ ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ ہرسال وزن کم ہونے کی وجہ سے (یعنی خوراک کی کمی کی وجہ سے) لاکھوں معصوم بچے دنیا میں آنکھ کھولنے سے قبل ہی اندھی موت کاشکار ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ بھی ماؤں کاصحت مند نہ ہونا،غذاکی کمی کاشکارہوناہے۔المیہ تو یہ بھی ہے کہ دیگر انسانی بیماریوں کے لیے دن منانے والوں نے کبھی “Save the Food for others” یعنی خواراک بچائیں دوسروں کے لیے جیسا ضروری نعرہ لگاکرکبھی انسانوں کومتوجہ نہیں کیا کہ وہ اپنے بھائیوں اورانسانیت کے لیے نوالہ نوالہ خوراک بچائیں تو کتنے بھوکے کھاناکھاسکتے ہیں۔اور نہ ہی اعداد وشمارکے جادوگروں نے کبھی 50کروڑ سے زیادہ خط غربت سے بہت ہی نیچے زندگی گزاررہی ماؤں کاتذکر ہ کرنا گوارا کیاہے۔
گویا آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی دوارب لوگوں کی یومیہ آمدنی ایک ڈالریااس سے بھی کم ہے اور اس کے پیچھے سرمایہ دارانہ نظام کاعفریت اور پس منظر ہے۔دولت محض چندسو خاندانوں کے ہاتھوں میں سمٹی ہوئی ہے جس کی وجہ سے امیر امیرتر اورغریب افلاس وفاقہ کی دلدل میں دھنستاچلاجارہاہے۔
اب اگر حقائق کا بغور جائز ہ لیاجائے تو یہ روح فرسا انکشاف ہوتاہے کہ ان حالات کی ذمہ داری بھی دنیا بھر کے حکمرانوں،سرمایہ داروں پر عائد ہوتی ہے جن عقل کے اندھوں نے محض اپنی حرص،طمع اور لالچ مٹانے کے لیے دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کو ایڑیاں رگڑنے اورسسکنے پرمجبورکردیاہے اورہرگزرتے دن کے ساتھ انسانیت دم توڑتی چلی جارہی ہے۔
آج تو صرف یہی ایک فکر دامن گیر دکھائی دیتی ہے کہ آنے والے کل کو محض دو روٹیاں نصیب ہوں گی یانہیں؟اگر یہی صورتحال رہی تو بھوکے لوگوں کی طرف سے امیروں،سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے لیے خون کاانقلاب آئے گا اور ان کی دولت خود ان کی موت کاسبب بن جائے گی۔
حضرت عمر ؓ جیسے جلیل القدر صحابی رسول کوفرات کے کنارے ایک کتے کے پیاسا مرنے پر محاسبے کی فکر ہو اور وہ ہر وقت اپنے رب سے ڈرتے ہوں تو ہمارے حکمران کیااللہ!منصف اور عادل کے دربار سے بچ جائیں گے،ہرگز نہیں۔
روز محشر جب اللہ کہے گا کہ میں بھوکا تھا مجھے کھاناکیوں نہیں کھلایا،میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی کیوں نہیں پلایا؟اور پھر اللہ کہے گا کہ میرا فلاں بندہ بھوکا پیاسا تھا اگر تم اسے کھاناکھلاتے،پانی پلاتے تو مجھے اپنے پاس پاتے۔اور جہاں حکمرانوں سے اس ضمن میں پوچھ گچھ ہوگی وہیں ہم سب کو بھی اس کے لیے تیار رہناچاہیے اور ہر گھر کم ازکم ایک بھوکے آدمی کے کھانے کابندوبست کرکے اپنے لیے آخرت میں سرخروی کاسامان تیارکرے۔تاکہ اس دنیا کے سب سے بڑے انسانی مسئلے سے نجات ملے اور ہماری دنیا جنت کانمونہ بن جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں