946

تباہی ہے اس قوم کے لیے…………

تباہی ہے اس قوم کے لیے………… جس سے اس کی زبان چھن گئی
تحریر: مدثریوسف پاشا ؔ
خالق کائنات نے انسان کو جواختیارات دے کر اس زمین پراتارا ہے ان میں نطق وگویائی ایک بہت بڑاوصف ہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ یعنی قرآن کاعلم دینے والے نہایت مہربان خدا جس نے قرآن کاعلم دیا اسی نے انسان کو پیداکیا اور اسے بولنا سکھایا (الرحمن۔ ۱۔۳) دوسری جگہ ارشاد ہے انسان کو وہ علم دیاجسے وہ جانتا نہ تھا۔امام قرطبی نے دونوں مقامات پر اپنی تفسیر میں یہ لکھا کہ اللہ نے آدم کو تمام چیزوں کے نا م سکھا دیئے تھے دوسری رائے یہ دی کہ تمام زبانوں کاعلم دے دیا۔
حضرت آدم ؑ کاجب اس زمین پر ظہور ہوا وہ کوئی زبان بولتے ہوئے یہاں آکر بسے تھے وہی ان کی اولاد کی زبان قرارپائی ہوگی۔ ہرخطے کے انسانوں نے اپنی زبان کو اپنی شناخت بنایاہوگا۔ انداز بودوباش میں فرق رونماہواہوگا۔ جداجداطرز معاشرت علاقے اور اس کے باسیوں کے کلچر کی جداشکل متعین کردی گئی ہوگی۔ ہرخطہ کواپنے کلچر اور اپنی زبان سے بجاطور پرلگاؤ بھی پیداہوگیاہوگا وہاں کے لوگ اپنے کلچر اوراپنی زبان پرفخر بھی کرنے لگے ہوں گے۔
اظہار کی وہ قدرت جوانسان کو ودیعت کی گئی وہ گوشت کے اس ڈیڑھ انچ کے ٹکڑے کے ذریعے سامنے آئی جسے زبان کہتے ہیں۔یاقلم اس کاوسیلہ بنے۔ یہ اللہ سبحانہ کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ارشادہوا ہے کہ ”اوراس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کااختلاف ہے۔یقینا اس میں میں بہت سی نشانیاں ہیں دانش مند لوگوں کے لیے“۔
زبانوں کی گوناگونی اور کثرت کامعجزاتی پہلو یہ ہے کہ اس کائنات کامالک وخالق روئے ارضی پر بسنے والے تمام انسانون کی تمام بولیاں سنتااور سمجھتاہے۔ اسے کسی بھی زبان میں پکاراجائے وہ جانتا ہے کہ اس کے بندے کیامانگ رہے ہیں؟ ان رنگارنگ زبانوں میں سے خالق نے کسی زبان کو کافر یامسلمان قرار دنہیں دیا ہے ہرزبان اس کے پیغام، اس کے سچے دین کی دعوت اور اعلیٰ انسانی اقدار اور پاکیزہ اخلاقی اور روحانی تعلیمات کو پھیلانے کاسبب بن سکتی ہے۔ ہرزبان تمدن کی خادم بن کردکھاسکتی ہے۔ ہر زبان سے تہذیب وثفافت کے فروغ کاکام لیاجاسکتاہے۔ تمام زبانیں علوم وفنون کو پھیلانے کی خدمت انجام دے سکتی ہیں۔ اظہار مدعااور حسن اظہار کی صلاحیت تمام زبانوں میں پائی جاتی ہے۔ محض زبان کی حیثیت سے کسی زبان کو برایااچھا ٹھہرانے کاہمیں حق حاصل نہیں ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمدن کی شاہر اہ پر زیادہ طویل سفر کرنے کی بناء پر کسی زبان میں وسعت، مٹھاس،نرمی اور لوچ زیادہ ہے اورکسی میں اس خوبی کی کمی ہے۔ ایک دورکے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت کسی زبان میں وافر ہوسکتی ہے اور کو ئی اس کے مقابلے میں مقابلتاً تہی دامن ہوتی ہے۔
تین زبانیں ایسی ہیں جن کے اسلامی ہونے کی ہم بات کررہے ہیں یہ وہ زبانیں ہیں جن کی اسلامی علوم ومعارف کے ساتھ گہری نسبت ہے۔ یہ اسلامی تہذیب وثقافت کی علامت ہیں۔ان کی اصطلاحات وتراکیت اور ان کے امثال ومحاورات سے اسلامی معاشرت،مسلمانوں کے طرز زندگی اور ان کے دینی حقائق کے اشارے ملتے ہیں۔ ان کے وسیع ذخیرہ الفاظ،ان کے اسماء وافعال کوسن اورپڑھ کر اسلامی شعور کے چراغ جگمگانے لگتے ہیں۔ یہ عظیم اسلامی سرمائے کی امین ہیں۔ ان میں سے عربی توبراہ راست اللہ کے پاک کلام کی زبان ہے۔ رسول کریم ﷺ کے حکیمانہ ارشادات کی زبان ہے۔ اہل جنت کی زبان ہے۔ اسکی ایک معجزاتی اور پرتقدس حیثیت ہے کیونکہ قرآن جیسا دائمی معجزہ اسی زبان میں ہے۔ لیکن اردو اور فارسی بھی دو ایسی زبانیں ہیں جو اسلامی ثقافت کاگراں قدر جز، اسکی عکاس اور ترجمان ہیں۔ ہم جب ااردو کی حفاظت اور اس کے فروغ کی بات کرتے ہیں تو یہ محض ایک زبان کی حفاظت اور ترقی کی بات نہیں ہوتی ہے۔ ہم اس کو بلاتامل اسلامی شعائر کاحصہ گردانتے ہیں۔
گویاعالم اسلام سے یہ مجرمانہ کوتاہی ہوئی کہ جس مرحلے پر زبردست مزاحمت کی ضرورت تھی مسلامن اپنے اپنے ملک میں مغرب کی تہذیبی یلغار کے سامنے خفیف سی احتجاجی صدابلندکرکے بے بسی کی چند چیخیں فضا میں بکھیر کر ار نفرت کے کچھ کلمات زبانوں سے اداکرکے سمجھ بیٹھے تھے کہ انہوں نے اپنی ثقافتی ورثے کاحق اداکردیاہے۔
اردو نام ہے جس کا: ہم سمجھتے ہیں اور بے شمار اہل نظر اس کو محسوس کررہے ہیں کہ اردو اس وقت بہت سے خطرات میں گھری ہوئی ہے۔ صرف ایک زبان کی بقاء کامعاملہ ہو تب بھی اس کی اہمیت اور نزاکت کو کم نہیں سمجھاجاسکتا۔ کیونکہ باشعور اور زندہ قوموں کے لیے زبان زندگی کی تابندہ علامت ہوتی ہے۔ فرانس کے سابق صدر آنجہانی متراں نے ایک مرتبہ فرانسیسی انتداب اور اثر کے تحت رہنے والے افریقی ممالک کی ایک کانفرنس میں اپنی زبان کے حوالے سے کہاتھای کہ فرانس کی عظمت اس کی زبان سے قائم ہے۔ ہم شایدخوداعتمادی اور افتخار ذات کے فقدانے کی بناء پر اپنی زبان کو اپنی عظمت کی نشانی باور کرنے سے گریزاں ہیں۔ ہمیں اپنی زبان کی وسعت اورصلاحیت کااندازہ نہیں ہے۔ اس زبان کی رگوں میں میرکے جذبوں کی تاثیر، احساس کی گہرائی اور سوزوگداز، آتش کے شکوہ بیان،غالب کی بلندپروازی فکر، شوخی اور تازگی،نکتہ آفرینی اور ندرت خیالی،مولاناحالی کی سادگی درداور خلوص جیسے داخلی عناصر خون بن کردوڑ ہی رہے تھے کہ حکیم الامت علامہ اقبال کے انقلاب آفریں اور بے نظیر کلام نے اس کوایک نئی رفعت سے آشنا کردیا۔ سرسید اور ان کے رفقاء نے اسے رومانوں اور خیالی داستانوں کی فضا سے نکال کراہم قومی مسائل اور اجتماعی مقاصد پر سنجیدہ انداز میں اظہار خیال کاوسیلہ بنایا۔ مولانا مودودی نے عظیم اجتہاری اور جدید دعوتی مشن اور ایک ہمہ جہتی فکری اور عملی انقلاب کے لیے بہترین ادبی اور جدید سائنٹیفک اسلوب میں جو عہد آفریں لٹریچر تیارکیا اس کی زبان اردو ہی ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس میں عربی کے بعد سب سے بڑا دینی،تہذیبی اور ثقافتی سرمایہ محفوظ ہے۔ ارد و کے خلاف ہندی تنازعہ سے لیکر آجتک ہندی ودیگر زبانوں کاتعصب ملاحظہ کرناہوتو کسی وقت عالمی ذرائع ابلاغ پر ہندی خبریں اور دوسرے پروگرام سن لیے جائیں۔ صرف عدالت نام کاایک ڈرامہ ہندی زبان کی ترویج واشاعت میں جس دل جمعی اور لگن سے خدمات سرانجام دے رہاہے۔ وہ ان کی اپنی زبان سے محبت کامنہ بولتاثبوت ہے۔ اہل اردو کے لیے آج کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے زمانے میں بھی مواد کانہ ملنا اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ ریختہ نامی ہندوستانی ویب سائٹ پر جس انداز میں اردو کے حوالے سے کام کیاگیاہے۔بالکل پاکستان میں بھی ایسی ہی مثالی ویب سائٹ وقت کی اہم ضرورت اور پکارہے۔ اردو کی حفاظت سے لاپرواہی برت کر ہم اپنی تہذیبی اور ثقافتی موت کااہتمام خود اپنے ہاتھوں سے کررہے ہیں۔ باشعور قومیں اپنی زندگی کاسامان کرتی ہیں اور ہم اپنے ثقافتی وجود کو مٹانے کے بندوبست میں لگے ہوئے ہیں۔ کاش پاکستانی اس امرپر توجہ دیتے کہ اسرائیل کے یہودیوں نے اپنی قومی تشخص کوقائم کرنے کے لیے کس طرح اپنی مردہ زبان کو زندہ کیا اور برصغیر کے ہندؤوں نے کس طرح ایک متروک زبان کو استعمال میں لاکراپنی قومی زبان بنالیاہے؟
شعبہ تعلیم سے اردو کااخراج: مسلمان ممالک پر تسلط کے وقت برطانوی استعمار کومقامی لوگوں سے صرف خدمت گار اور کارندے ہی مطلوب نہیں تھے بلکہ انہیں ایسے ذہنوں کی ضرورت تھی جن پر مغرب کارنگ چڑھاہواہو جن دماغوں سے پھوٹنے والی سوچیں برطانوی ہوں۔ زبان اور دماغ کاآپس میں بڑا گہر ا تعلق ہوتاہے۔دماغ جوکچھ سوچتاہے زبان اسے اگلتی ہے اور زبان سے جو کچھ نکلتاہے وہ ذہن میں جاکر بیٹھتاہے۔ زبان کسی قوم کے کلچر کی طرف کھلنے والادروازہ ہوتاہے اس دروازے سے اس کلچر کانظارہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس نظارے کے نفسیاتی اثرات قلوب واذہان پر مرتسم ہوتے ہیں۔ کسی زبان سے تعلق کامطلب یہ ہوتاہے کہ اس کلچر سے میلان پیداہوگیاہے جس کی ترجمان یہ زبان ہے۔
تعلیم کاشعبہ ابلاغیات کاسب سے طاقتور میدان ہے ہرصبح ملک کے کروڑوں نونہال تعلیم کے حصول کے لیے درس گاہوں کارخ کرتے ہیں۔ ان کے کچے دماغوں اور ناپختہ شخصیتوں پر تعلیمی ادارے اسی طرح مخصوص کلچر کارنگ چڑھاتے ہیں جس طرح ایک نیلاری اور رنگریز سفید کپڑے کو رنگتا ہے۔ ہمارے ملک میں انگریزوں کی آمدکے وقت سے تین مختلف تعلیمی نظام رائج تھے۔ اس تقسیم اور امتیاز وتفریق کے بہت سے معاشی اور معاشرتی نقصان ضرور تھے لیکن اس شر میں خیرکاایک پہلو موجودتھا وہ یہ کہ عوام کے لیے جاری نصاب اور اس کے لیے مخصوص نصاب پڑھنے والے طلبہ وطالبات اپنی زبان یعنی اردو سے نابلدنہ رہتے تھے۔ چنانچہ بالائی طبقے کی اردو دشمنی اور انگریزپرستی کے باوجود اردو زندہ رہی۔ اس کو بولنے،پڑھنے اور سیکھنے والے کم نہ تھے۔ یہ معاملات چلتے رہتے تو کوئی حرج نہ تھا لیکن گذشتہ چارعشروں سے انگریزی ذریعہ تعلیم رکھنے والے سکولوں کاجال بچھادیاگیاہے۔ انگریزوں نے ایک کیمرج یونیورسٹی قائم کی تھی ہمارے ملک کے ہرگلی،محلے میں انگریزوں کے نام کے ادارے کھل گئے ہیں حتی کہ انگریزی کو بطور نصاب پڑھانے کے رجحان نے ایک وباء کی صورتاختیار کرلی ہے۔ ان اداروں سے فارغ الحتصیل طلباء وطالبات انگریزی میں کوئی مضمون،درخواست لکھ سکتے ہیں یانہیں لیکن ایک سب سے بڑاالمیہ یہ ہواہے کہ ان اداروں کے ذریعے اردو کی بیخ مارنے اور اس کے شجر کوجڑ سے ختم کردینے کے عمل میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی آتی جارہی ہے۔ ستم بالائے ستم اردو سے لگاؤ رکھنے والے افراداور تنظیمیں بھی انگریزی اداروں کو قائم کرکے ان کی بالادستی قائم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اردو اپنے گھر میں پردیسی اور اجنبی بنتی جارہی ہے۔ تعلیم کی دنیا سے اس کو خارج کرنے عمل بڑے افسوس ناک اور درد انگیز انداز میں آگے بڑھتانظرآرہاہے۔
عالمگیریت: کچھ لوگوں کی نظر میں یہ تقریباً ایک ہزار بین الاقوامی سطح کی کمپنیوں کی دنیاپر حکومت کانام ہے۔ جس میں سات سو کے قریب کمپنیاں امریکی ہیں۔ اور تین سو کے قریب غیر امریکی۔ ان کمپنیوں کے سطح پر مفادات کی نگرانی امریکہ نے اس شرط کے ساتھ اپنے ذمہ لی ہے کہ یہ کمپنیاں امریکی زبان وثقافت کورواج دینے کی عالمی مہم کواپنے تجارتی اور کاروباری مقاصد میں شامل رکھیں گی۔ اسی بناء پر گلوبلائزیشن کوامریکنیائزیشن کادوسرانام دیاجارہاہے۔ امریکی جوپسند کرے گا وہی سب کی پسند ہوگی۔ کیونکہ معاملات اور اطلاعت کے سرچشموں پر اس کاقبضہ ہے۔ عالمگیریت کی ایک اور تعریف یہ کی گئی ہے کہ یہ ایک ایسی بے رحم عالمی ریاست کے ہم معنی ہے جودنیابھر میں اشیاء مصنوعات،خدمات،علوم،ابلاغیات،تصورات ونظریات،اخلاقی رویوں،ثقافتی علامتوں اور رجحانات واظہارات کو اپنی گرفت میں رکھنے کاعزم کیے ہوئے ہے۔ تاکہ ساری دنیا اس کی قلمر و کاحصہ بن جائے۔ اسکی سرکاری اور ثقافتی زبان انگریزی ہے۔
زبان کی وسعت کی نشانیاں: ایک زندہ متحرک،متمدن آفرین اور ترقی دوست زبان کی مثال مین لائن پررواں دواں اس ریل گاڑی کی سی ہوتی ہے جو جس اسٹیشن پر رکتی ہے وہاں کے ماحول کو متاثر کرتی ہے۔ اس کے پہنچتے ہی پلیٹ فارم پر ہل چل سی مچ جاتی ہے۔ ایک ہنگامہ برپا ہوجاتاہے۔ سونی اور بے رونق فضامیں ایک جان سی پڑجاتی ہے۔ کچھ مسافر اترتے ہیں کچھ نئی منزلوں کے لیے سوار ہوجاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح زبان ثقافت کے تمام گوشوں پر اثر ڈالتی اور ان کااثر قبول کرتی ہے۔ اس پر چڑھنے اترنے والے اس کے الفاظ وتراکیب واصطلاحات ہوتی ہیں۔ کچھ اصطلاحات وتراکیب اور الفاظ مشترک ٹھہرتے ہیں کچھ کااس میں اضافہ ہوتاہے۔ زبان میں یہ ترک واختیار الفاظ کاسلسلہ اس کے زندہ ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ انگریزی زبان پچھلے چھ سوسال سے ایسے بے شمار تغیرات سے گزر ی ہے۔شکسپئیر کے دورکی انگریزی آج ایک عام انگریز اور امریکی کے لیے بڑی حدتک ناقابل فہم ہے۔ یہی معاملہ ارد و کاہے۔میرامن دہلوی کی باغ وبہار میں جو زبان استعمال کی گئی تھی یاخواجہ میردرد اور میر تقی میر کی اردو کے بہت سے الفاظ اور ان کاانداز اس دور میں ایک عام فہم اردو دان سے بڑی حدتک بعید اور نامانوس سابن گیاہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ امر زبان میں کسی بگاڑ،ضعف اور زوال کی علامت ہرگز نہیں ہوتابلکہ یہ اس زبان کی ترقی کی نشانی ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ زبان جمودکاشکار نہیں ہے یہ مسلسل آگے بڑھتی اور ترقی کرتی رہتی ہے۔ کسی زبان میں نئے الفاظ وتراکیب اور نئی اصطلاحات کااضافہ دوچیزوں کوظاہر کرتاہے۔ ایک یہ کہ اس زبان کے بولنے والے سوچ اورفکر کے لحاظ سے کسی کنوئیں کے مینڈک نہیں ہیں کہ اپنے اردگرد کے ماحول کی ان کو خبر نہ ہو۔ انہوں نے دل ودماغ اور شعور وفہم کی کھڑکیاں بندکرکے نہیں رکھیں ہیں جہاں سے تازہ افکار کے جھونکے آتے ہیں۔ نہ تو ان کاآنگن اتنا تنگ ہے کہ اس میں اظہار وبیان کے نوبہ نو اور دل کش پھول کھلنے کی گنجائش نہ رہی ہواور نہ ہی وہ اتنے کوتاہ نظر اور متعصب ہیں کہ دوسری قوموں اور دوسرے معاشروں سے تعامل کے امکانات کو مسدود کرکے بیٹھ گئے ہوں۔دوسری چیز یہ ہے کہ خودزبان کودامن اتناوسیع اور مزاج ایسالچکدار ہے کہ جذب وانجذاب اور اخذ کے عمل سے مسلسل گزرتی رہتی ہے۔ اس میں سکڑنے کانہیں بلکہ پھیلنے کارجحان کارفرماہوتاہے۔
اردو میں یہ اوصاف بدرجہ اتم موجودرہے ہیں۔ اس زبان نے نئی رتوں اور نئی ہواؤں کے سامنے تنکا بن کراپنے وجودکوان کی نظر نہیں کیا بلکہ چمن بن کر ان رتوں کے پھل پھول دیے اور ان ہواؤں کے سپر داپنی خوشبوئیں کیں کہ یہ اس کی بہار کاپیغام سارے جہاں تک پہنچادیں۔ پچھلے ڈیڑھ سو سال میں دوسری زبانوں کے سینکڑوں الفاظ اردو کاحصہ بنے۔ یاس نے علم ومعرفت کاوسیلہ بننے کی صلاحیت کومنوایا۔ ادق اور بلند علمی نکات سے لے کرنازک اور لطیف جذبات واحساسات کے اظہار کی قدرت دکھائی۔ انگریزی کے بے شمار الفاظ کواس نے اپنے اندر اس طرح سمویا ہے کہ ان کو پڑھتے اور سنتے وقت انکے اجنبی ہونے کاشائبہ تک نہیں ہوتا۔
لیکن اب اچانک یہ ایسے سلوک کانشانہ بن رہی ہے گویااسے مین لائن سے اتار کر کسی برانچ لائن پر نہیں ڈالاجارہا بلکہ اس کی حالت ان ڈبوں کی مانندہوگئی ہے جوکسی اسٹیشن کی حدود سے باہر ایک منقطع پٹڑی پر لے جاکرکھڑے کردئیے جاتے ہیں۔ اردو کے جملوں میں انگریزی اسماء وصفات کے استعمال سے جو سلسلہ چلاتھا وہ اب افعال کو سوچے سمجھے اوربے تکے انداز میں بولنے کے رجحان پر منتہج ہورہاہے۔ اور تو اردو جاننے والے، زبانوں کے رموز کو سمجھنے والے، قومی زبان کے وقار سے آگہی رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ ایساکررہے ہیں۔ مقرراور خطیب اسی رو میں بہے چلے جارہے ہیں۔ ریڈیواور ٹی وی کے مرد وخواتین اناؤنسر اسی روش کو تیزی سے اپنارہے ہیں۔ عام بول چال سے اس رجحان کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس رجحان کی نشاندہی کے لیے یہ پیراگراف ملاحظہ کیجیے۔ (پیراگراف ڈئیر چیف ایڈیٹر والا)
ان جملوں میں سے کوئی بھی جملہ انگریزی لفظ سے خالی نہیں ہے۔ ان میں جوانگریزی الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ ایسے افعال ہیں جن کے متبادل سے معمولی پڑھالکھا آدمی بھی واقف ہے۔ اس رجحان کاسبب احساس کمتری کہلاتاہے۔ یہ دراصل پیروی اغیار کاثبوت ہے۔ ایسی ہی بے ضرورت احساس وشعور سے عاری اور غیر منطقی تقلیدقوموں کی تہذیب وثقافت، ان کی زبان ان کے طرز معاشرت میں بے معنی تبدیلی کانقطہ آغاز بنتی ہے۔ زندہ اور باشعور قومیں اس معاملے میں بہت حساس ہوتی ہیں وہ اس نقطہ کے ابھرنے سے پہلے احتیاطی تدابیر کرلیتی ہیں۔ وہ نہ طرز کہن پر اڑتی او ر آئین نو سے ڈرتی ہیں اور نہ اپنے تمدن وثقافت کے ورثے کو سستاسمجھ کر اسے نیلامی کے مال میں ڈال دیتی ہیں۔
ہماری ذمہ داری:ہمیں خلیج کے ممالک کی مثال کو سامنے رکھناچاہیے جہاں ہر رنگ ونسل کافرد اپنی زبان وثقافت لے کرگیا لیکن انہوں نے اپنی معاشرت،زبا ن اور ثقافتی شناخت کے گرد قومی غیرت، عزت نفس،افتخارذات اور احساس وشعور کامضبوط حصار کھینچ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ بات احساس وشعور کی بیداری اور اپنی ثقافتی علامتوں سے دلی لگاؤ کی ہے یہ لگاؤ پیداہوجائے تو محض ایک جذبہ نہیں رہتا بلکہ دفاعی قلعہ بن جاتاہے۔
اردو بھی اس دفاعی قلعے کی تعمیر کے لیے ہمیں پکاررہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو بولو،پڑھواور لکھو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں