کشمیر کی پکار
ریاست جموں وکشمیر کے مسلمان ایک طویل عرصے سے برطانوی،ڈوگرہ اور بھارتی سامراجیوں کے مختلف النوع ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کے جسم کا پور پور زخموں سے چور چو ر ہے اور ان کا بدن لہولہان ہے۔ لیکن اپنے ایمان اور اپنی آزادی کی حفاظت کے عزم اور جدوجہد میں الحمدللہ انہوں نے کوئی کمی نہیں ہونے دی۔ ہردور میں اور ہرحال میں استعماری قوتوں کی مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد میں قربانیوں اور استقامت کی ایسی تاریخ رقم کی ہے جوظلمت کے شکار ساری دنیا کے انسانوں کے لیے روشنی کامینارثابت ہوگی۔ اس وقت تحریک کشمیر اپنے جوبن پرہے۔اس میں جہاں ایک طرف بھارتی سامراج کے ظلم واستبداد کے تمام ہتھکنڈوں کی ناکامی الم نشرح ہے وہیں کشمیرکے بوڑھوں اور جوانوں ہی نہیں،بچوں اور خواتین کے ایک سیلاب اور ان کے عزم صمیم نے ساری دنیاکوششدرکردیاہے۔اب تو احتجاج اور قربانیوں کایہ عالم ہے کہ شہدا کے سروں کی فصل کاٹی جارہی ہے مگر سرفروشوں کی قربانی کے جذبے میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں آرہی۔نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ جموں وکشمیر کاہربچہ بچہ آزادی کاعلم لے کر اٹھ کھڑاہواہے۔
ویسے تو کشمیر کی بدقسمتی کاآغاز دوصدیوں پہلے برطانوی سامراج کے اس ظالمانہ اور غاصبانہ اقدام سے ہوا جس میں ایک پوری ریاست اور ایک پوری قوم کو چندٹکوں کے عوض ڈوگروں کے ہاتھ فروخت کردیاگیا۔
تقسیم ملک کے فیصلے کے ساتھ ہی جموں وکشمیر کی اسمبلی کے مسلمان ارکان نے الحاق پاکستان کااعلان کیا، اور ریاست گیر تحریک برپا کی جسے قوت کے ذریعے کچلنے میں ڈوگرہ راج نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔اہل اقتدار نے بھارتی قیادت کاساتھ دیا اور ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف نے ہراصول اور وعدے کو پامال کرتے ہوئے ریاست جمو ں وکشمیر پربھارت کے قبضے کاراستہ صاف کیا۔ پاکستان کی افواج کے برطانوی کمانڈر نے قائد اعظم کاحکم ماننے سے انکار کرکے پاکستان کے متبادل اقدام کوناکام کیا۔ جس کے ردعمل میں عوامی تحریک نے ایک نیارخ اختیار کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں مسلح مزاحمت 1989ء میں اس وقت شروع ہوئی جب انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور ایک سکول کے استاد صلاح الدین کو جواب حزب المجاہدین کے سربراہ ہیں،ناکام قرار دیاگیا۔جب کہ بیش تر کشمیر ی سمجھتے تھے کہ وہ انتخابات جیت چکے ہیں۔
بات صرف ایک صلاح الدین کی نہ تھی۔تحریک مزاحمت اور متحدہ محاذ کی پوری قیادت کی ہے اور حکمت عملی کی اس تبدیلی کی پوری ذمہ داری بھارت اور اس کی پالیسیوں پرہے۔ نیز یہ بات بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ یہ صورت حال صرف جموں وکشمیر میں رونما ہوئی،سامراج کی پوری تاریخ میں بیرونی قبضے کے خلاف کسی نہ کسی مرحلے؛پر تحریک مزاحمت کو نشے میں دھت حکمرانوں کے بالمقابل آکر لڑناپڑا۔یہ وجہ ہے کہ آج اقوام متحدہ کے 192 ممالک میں سے 160ایسے ہیں جنہوں نے عسکری قیادت کے ذریعے ہی آزادی حاصل کی ہے۔
تحریک کشمیر کو تو مشرف اپنے آقاومولا کی ہدایت ورہنمائی کے مطابق ختم کرچکے تھے لیکن وہ فانوس ہی کیابجھے جس کی حفاظت خداکرے کے مصداق 2008ء میں تحریک کشمیر کے ایک اور سنہر ے دور کاآغاز ہو ا۔جب حکومت نے کشمیر کی 1100ایکڑ اراضی امرناتھ ٹرسٹ کو منتقل کی اور اس کے خلاف سول تحریک کاآغاز سید علی شاہ گیلانی کی پکار پرہوا۔ پرامن احتجاج،ہڑتال اور گولی کے جواب میں پتھر کے ہتھیار کااستعمال اس موقع پرہوا۔ اور اس طرح تحریک کشمیر نے فلسطین کی تحریک کی طرز پر غیر مسلح جدوجہد کاآغاز کیا۔ اور کچھ ہی دنوں میں حکومت کو اپنی شکست تسلیم کرناپڑی۔
طاقت اور قوت کے نشے میں چور جمہوریت کانام نہاد علمبردار بھارت آج پھر اپنے آقاؤں (امریکہ،اسرائیل اور برطانیہ) کی خصوصی مدد اور ہدایت پرشمع آزادی کے پروانوں کے خاتمے کے بھونڈے خواب دیکھ رہاہے۔لیکن ریاست جموں وکشمیر کے باغیر ت، باصلاحیت اور صاحب عقل ودانش مسلمانوں نے بھارت کے اس خواب کو بھی سابقہ خوابوں کی طرح چور چور کرنے کاعزم کرلیاہے۔اور آزادی کی منزل بس چند قدم کے فاصلے پرہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
741